ماہ رمضان اور زکات

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 03 APRIL

آصف تنویر تیمی

مسلمانان عالم ان دنوں نہایت بابرکت مہنیہ رمضان سے گزر رہے ہیں۔ نیکیوں کا موسم بہار ہے۔ نماز روزہ صدقات وخیرات سے ہر شخص اپنے دامن مراد کو بھررہاہے۔ اس ماہ میں ہر نیکی کا ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ اس ماہ کی فضیلت اور اس کے ثواب سے بہرور ہونے کی خاطر لوگ اپنا واجبی اور نفلی زکاۃ اس ماہ میں نکالنے کا خاص اہتمام کرتے ہیں،یقینا ایسے افراد قابل ستائش ہیں۔ اور جو لوگ زکاۃ کی اہمیت، اس کی فضیلت سے دور ہیں ان کے لئے بھی سنہری موقع ہے کہ وہ اپنی اصلاح کریں اور اسلامی نظام کے مطابق زکاۃ ادا کریں۔خاص طور سے اس لاک ڈاون میں فرض زکاۃ کے علاوہ نفلی زکاۃ کے ذریعہ بھی اپنے غریب بھائی بہنوں کی ضرورتوں کی پوری تکمیل کرنے کی کوشش کریں۔
حدیث میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ فیاض اور سخی تھے۔ خاص طور سے جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو آپ کی فیاضی اور سخاوت تیز آندھی سے زیادہ ہوجاتی تھی۔آپ کا یہ عمل ہمیں اس بات کا درس دیتاہے کہ ہم بھی اس مبارک مہینہ میں اپنی مٹھی کو بند نہ رکھیں بلکہ زیادہ سے زیادہ اللہ کے دیئے ہوئے مال سے اللہ کی راہ میں خرچ کریں۔نیکی کا موقع ملنا بھی بڑی بات ہوتی ہے۔ اور اس وقت جب کہ دنیا کے بیشتر لوگ ہماری مدد اور تعاون کے محتاج ہیں،اگر اللہ تعالی نے ہمیں مال ودولت سے نوازا ہے تو ہمیں کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے۔
زکاۃ کی فرضیت کی حکمت:زکاۃ کی فرضیت کی حکمتیں بہت ساری ہیںجیسے: زکاۃ دینے سے مال پاکیزہ وبابرکت ہوجاتا ہے۔ اس کے ذریعہ فقراء ومساکین کی مدد ہوتی ہے۔ انسان کا نفس بخیلی وکنجوسی جیسی بری صفتوں سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ حصول مال کی وجہ سے انسان پر جو اللہ کا شکر لازم آتا ہے وہ زکاۃ نکالنے سے ادا ہو تا ہے ۔
زکاۃ کی فضیلت : زکاۃ کے فضائل سے متعلق بہت ساری حدیثیں ہیں۔ ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ کو جنت میں داخلے کا سبب قرار دیا ہے۔حضرت ابوایوب سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں داخل کردے۔ یہ سن کر لوگوں نے کہا کہ یہ آخر کیا چاہتا ہے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’یہ تو بہت اہم ضرورت ہے۔(تو یادرکھو!) اللہ کی عبادت کرو، کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ، نماز قائم کرو، زکاۃ ادا کرو اور صلہ رحمی کرو‘‘۔(بخاری ،مسلم) ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’صدقہ کسی مال کو کم نہیں کرتا اور اللہ تعالی معاف کرنے کی وجہ سے بندے کی عزت ہی بڑھاتا ہے اور جو کوئی شخص اللہ تعالی کے لئے جھکتا ہے تو اللہ تعالی اسے بلندکردیتے ہیں‘‘۔(مسلم) ایک دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاگ’’ زکاۃ کے ذریعے اپنے اموال محفوظ کرو‘‘(بیہقی فی شعب الایمان)۔ ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد موجود ہے:’’ بلا شبہ صدقہ پروردگار کا غضب ختم کردیتا ہے‘‘۔(سلسلہ صحیحہ۱۹۰۸)
زکاۃ کی اہمیت: عبادات میں زکاۃ ایک اہم عبادت ہے۔اللہ تعالی نے پچھلی امتوں کو بھی اس کا حکم دیا تھا۔ قرآن کریم میں بنی اسرائیل ،اسماعیل،ابراہیم،اسحاق ، یعقوب اور عیسی علیہم السلام کو متعدد مقامات پر زکاۃ کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے۔اورمذہب اسلام کا تیسرا رکن ہی زکاۃہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اسلام کی بنیاد پانچ اشیاء پر رکھی گئی ہے(ان میں سے ایک یہ ہے) زکاۃ کی ادائیگی‘‘۔(بخاری) زکاۃ کا منکر اسلام سے خارج تصور کیا جاتا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:’’ جنہیں اللہ تعالی نے اپنے فضل سے کچھ دے رکھا ہے وہ اس میں کنجوسی کو اپنے لیے بہتر خیال نہ کریں بلکہ وہ ان کے لیے نہایت بدتر ہے، عنقریب قیامت والے دن یہ اپنی کنجوسی کی چیز کے طوق ڈالے جائیں گے‘‘۔(آل عمران: ۱۸۰) دوسری آیت میں اللہ تعالی نے فرمایا:’’ جو لوگ سونے چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچادیجئے کہ جس دن اس خزانے کو آتش دورخ میں تپایا جائے کا پھر اس سے ان کی پیشانیاں، اور پہلو، اور پیٹھیں داغی جائیں گی۔(اور ان سے کہا جائے گا کہ) یہ ہے جسے تم نے اپنے لئے خزانہ بنا کر رکھا تھا پس اپنے خزانوں کا مزہ چکھو‘‘(التوبہ:۳۴؍۳۵) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب چند قبائل نے زکاۃ کی ادائیگی سے انکار کیا تو ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے ان قبائل سے جہادکا اعلان کردیا۔ انہوں نے فرمایا: نماز جسمانی عبادت اور زکاۃ مالی عبادت ہے، دونوں میں تفریق نہیں کی جاسکتی،اگر کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایک رسی بھی زکاۃ کے طور پر دیتا تھا اگر اس نے اسے دینے سے انکار کیا تو میں اس سے جنگ کروں گا۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ زکاۃ ادا نہ کرنے والا قیامت کے دن آگ میں ہوگا‘‘۔(طبرانی صغیر) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جن لوگوں نے اپنے اموال کی زکاۃ روک لی ان کے لئے آسمان سے بارش روک دی گئی‘‘۔( صحیح ترغیب)
یادرکھیں چار قسم کے اموال پر زکاۃ واجب ہے: سونا چاندی اور نقدی وغیرہ۔ مویشی مثلا اونٹ،گائے اور بکری وغیرہ۔ ہر قسم کے تجارتی اموال۔ زمین سے حاصل شدہ اشیاء مثلا پھل،سبزیاں، معدنیات اور دفینے وغیرہ۔
زکاۃ کی فرضیت کے شرائظ:اور زکاۃ کی فرضیت کے شرائط حسب ذیل ہیں: صاحب مال کو مال پر ملکیت تامہ حاصل ہو۔ مال فردواحد کی قبضہ میں ہو۔ مال کسی حرام ذریعے سے کمایا نہ گیا ہو۔ مال بنیادی ضروریات زندگی سے زائد ہو۔ آدمی کے اوپر قرض نہ ہو۔ مال نشو ونما کے قابل ہو۔ مال نصاب کو پہنچ رہا ہو اور اس مال پر ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہو۔
جن چیزوں میں زکاۃ نہیں ہے ان میں سونا چاندی کے علاوہ دیگر جواہرات ۔ غلام اور گھوڑے ۔ذاتی استعمال کی اشیاء مثلا رہائشی مکان، رہائش کے لئے خریدا ہوا پلاٹ، فرنیچر،برتن، فریزر، اسلحہ، موٹر سائیکل اور کاروغیرہ ۔ گدہا ،خچر اور پالتو جانو روغیرہ۔
سونے اور چاندی کا نصاب اور مختصر شرح زکاۃ:سونے کا نصاب بیس(۲۰) دینار ہے، اس سے کم میں زکاۃ واجب نہیں،اس میں اڑھائی فیصد کے حساب سے چالیسواں حصہ یعنی نصف دینار زکاۃ ہے۔چاندی کا نصاب دوسو(۲۰۰) درہم ہے، اس سے کم میں زکاۃ نہیں ہے۔چاندی میں اڑھائی فیصد کے حساب سے پانچ درہم زکاۃ ہے۔سونا اگر بیس دینار سے یا چاندی دوسودرہم سے زائد ہو تو مکمل مالیت سے اڑھائی فیصد کے حساب سے زکاۃ ادا کردی جائے گی۔
اونٹوں کی زکاۃ کی مختصر تفصیل:پانچ سے کم اونٹوں پر زکاۃ واجب نہیں ہے۔جب اونٹوں کی تعداد پانچ(۵) ہوجائے تو ان پر ایک بکری، اور پھر ہر پانچ اونٹوں پر ایک بکری ہے۔جب اونٹوں کی تعداد پچیس(۲۵) ہوجائے تو ان میں ایک سال کی اونٹی یا دوسال کا اونٹ ہے۔چھتیس(۳۶) اونٹوں میں دوسال کی اونٹنی۔چھیالیس(۴۶) اونٹوں میں تین سال کی اونٹنی،اکسٹھ(۶۱) اونٹوں میں چار سال کی اونٹنی، چھہتر(۷۶) اونٹوں میں دودوسال کی دو اونٹنیاں،اکانوے(۹۱) سے ایک سوبیس(۱۲۰) تک تین تین سال کی دواونٹنیاں۔اگر تعداد ایک سو بیس(۱۲۰) سے زیادہ ہوجائے تو ہر چالیس (۴۰) پر دوسال کی اونٹنی اور ہر پچاس(۵۰) پر تین سال کی اونٹنی ۔
گائے( اور بھینس) کی زکاۃ کی مختصر تفصیل:تیس(۳۰) گایوں پر ایک سالہ مادہ گائے یا نر بچھڑا ،چالیس(۴۰) پر دوسال کا بیل یا گائے ،اس کے بعد ہر تیس گائیوں پر ایک بچھڑا اور ہر چالیس گائیوں پر ایک بیل یا گائے ۔
بکریوں کی زکاۃ کی مختصر تفصیل: چالیس(۴۰) سے کم بکریوں پر زکاۃ نہیں۔چالیس(۴۰) سے ایک سو بیس(۱۲۰)بکریوں تک ایک بکری،ایک سو اکیس(۱۲۱) سے دو سو(۲۰۰) تک دو بکری،دوسوایک (۲۰۱) سے تین سو(۳۰۰) تک تین بکری،پھرہرسو(۱۰۰) پر ایک بکری۔
مصارف زکاۃ: اللہ تعالی کے فرمان کے مطابق مصارف زکاۃ آٹھ ہیں:فقرا،مساکین،زکاۃ کی وصولی اور تقسم پر مامور افراد،ایسا کافر جو اسلام کی طرف مائل ہو،غلام کی آزادی،مقروض شخص،جہاد فی سبیل اللہ،مسافر۔
اللہ ہم سب کو قرآن وحدیث کے مطابق اس ماہ مبارک میں زکاۃ کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)