بڑی عوامی تحریک کی ضرورت

TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN –23  MAY

اسلامی شریعت کے احکام بنیادی طور پر جن پانچ مقاصد پر مبنی ہیں ان میں دین،جان، نسل اور مال کی حفاظت کے ساتھ عقل کی حفاظت بھی شامل ہے، عقل اور فکر و نظر کی قوت کو باقی اور توانا رکھنا اور اسے نقص و خلل سے محفوظ رکھنا اسلام کے اساسی مقاصد میں سے ہے۔شراب، منشیات اور نشہ آور چیزوں کے استعمال کو شریعت اسلام میں حرام، ناپاک اور مہلک اس لئے بتایا گیا ہے کہ اس کے ذریعہ انسان انسانیت کے جامے سے باہر آجاتا ہے اور پھر وہ سب کچھ کر گذرتا ہے، جس سے انسانیت اور شرافت شرم سار ہوجائیں۔ہمارے موجودہ سماج میں منشیات کا استعمال تیزی سے بڑھتا جارہا ہے اور خاص طورپر نوجوانوں کا طبقہ اس لت میں بری طرح مبتلا ہوتا جارہا ہے۔صورت حال اس قدر تشویش ناک ہے کہ ہزارہا ہزار گھر تباہی کے دہانے پر ہیں، خاندان بکھر رہے ہیں، طلاق کی شرح بڑھتی جارہی ہے، اخلاقی بے راہ روی عام ہوگئی ہے اور امت کے مستقبل کے معمار جوان اپنا سب کچھ داؤں پر لگاتے جارہے ہیں اور انہیں اپنے طرز عمل کی ہولناکی اور سنگینی کا احساس تک نہیں ہے۔

تمام میڈیکل تحقیقات شراب اور دیگر منشیات کے ضررر ساں اور ہولناک نتائج و اثرات پر متفق ہوچکی ہیں۔سماج میں آدھے سے زیادہ جرائم شراب کے استعمال کے نتیجے میں ہوتے ہیں۔ اسی لئے اسلام نے،جو انسان کی فطرت سلیمہ سے ہم آہنگ ہے، شراب پر بندش لگائی ہے، چوں کہ اس وقت کا عرب معاشرہ شراب نوشی میں آخری حد تک غرق تھا، اس لئے قرآن کریم میں بتدریج کئی مرحلوں میں شراب کو حرام قطعی قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ جو شخص شراب کو جائز سمجھ کر پیتا ہے وہ واقعی ایمان سے خارج ہوجاتا ہے، اور جو حرام سمجھتا ہے پھر بھی پیتا ہے وہ ایمان کے کمال سے محروم ہوجاتا ہے، اور من جانب اللہ نور ایمان اس سے سلب کرلیا جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طاعات سے اس کی طبیعت اچاٹ اور معاصی کی طرف راغب ہوجاتی ہے، پھر اس کا تعارف صاحب ایمان اورنیک انسانوں کے بجائے مے نوش او رشرابی کے لقب سے ہونے لگتا ہے، اور پھر اگر مے نوشی کی یہ عادت لت بن جائے توانجام کارایمان و یقین سے محرومی کا ذریعہ ہوجاتی ہے، انہیں تمام حقائق کو زبان نبوت میں اس بلیغ ، جامع اور مختصر تعبیر میں بیان کردیا گیاہے کہ مے نوش حالت مے نوشی میں مومن نہیں رہتا۔

  یہ بہت ہی اطمینان کی بات ہے حکومت بہار نے شراب پر مکمل طور پر پابندی عائد کر دی ہے۔اس کے بڑے اچھے اثرات سامنے آرہے ہیں۔دیگر ریاستوں میں شراب بندی کے لئے عورتیں تحریک چلا رہی ہیں۔ اس کے باوجود نئی نسل مختلف نشہ آور اشیاء استعمال کرنے میں پیش پیش نظر آرہی ہے۔ اس لعنت کو ختم کرنے کے لئے اس کی جڑوں تک پہنچنے کی کوئی کارگر حکمت عملی نظر نہیں آ رہی ہے۔ سب سے زیادہ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ منشیات کی یہ لعنت تیزی کے ساتھ اسکول اور کالجوں کے طلباء کو اپنا شکار بنا رہی ہے۔ وہ اپنے نشہ کا شوق، جو جلد عادت بن جاتا ہے کو پورا کرنے کے لئے مختلف جرائم میں بھی ملوث ہورہے ہیں۔ اس کو روکنا بیحد ضروری ہے۔حکومت و انتظامیہ کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر بھی اس کے لئے مؤثر اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔

منشیات کی لعنت کے وبا کی مانند پھیلاؤ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ والدین اپنے بچوں سے عموماََ لا پرواہ ہوگئے ہیں۔ اچھے اور معیاری اسکولوں میں داخل کرتے ہوئے والدین اپنی ذمہ داریوں سے فرار حاصل کر لیتے ہیں۔ انہیں بچوں کی نقل و حرکت اور ان کی حرکات و سکنات پر اور ان کی عادات پر پوری توجہ دینی چاہئے۔ جب تک والدین اپنے بچوں کی پل پل کی خبر لینے کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھیں گے انہیں اس طرح کی لعنتوں کا شکار ہونے سے بچایا نہیں جاسکتا ہے ۔ جو ڈرگس مافیا ہے وہ تو سماج کی جڑوں کو کھوکھلی کرنے پر تلا ہوا ہے اور اس کے سامنے صرف ناجائز اور غیر قانونی طریقہ سے دولت حاصل کرنے کا نشانہ ہوتا ہے۔ وہ اسکولوں اور کالجوں کے طلبا کو اِس کا شکار بناتے ہوئے اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہو رہا ہے ۔ اگر اس سلسلہ کو جاری رہنے کی اجازت دی گئی تو پھر ہمارےبچوں کا مستقبل تاریک ہوتا جائیگا اور صورتحال اس حد تک پہونچ جائے گی، جہاں سے پھر سدھار تقریبا نا ممکن ہوجائیگا ۔ اس سے نہ صرف یہ کہ ایک بچہ یا ایک گھر بلکہ سارا سماج متاثر ہوکر رہ جائیگا ۔ یہ صورتحال سارے ملک کیلئے پریشان کن ہے اور اس سے نمٹنے کیلئے ملک کے مستقبل کی فکر رکھنے والوں کو آگے آنے  اور اس سماجی اور قومی لعنت کے خلاف سرگرم ہونے  اور اس کے خاتمہ کیلئے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے ۔اور ایساکسی بڑی عوامی تحریک سے ہی ممکن ہے۔

*****************