حج اللہ سے تعلق کی سب سے بڑی دلیل

TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN –16  MAY

ڈاکٹرمحمدسعیداللہ ندوی
ناظم جامعۃ الحسنات دوبگا ،لکھنؤ

حج اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک ہے جن پر اسلام کی بنیاد ہے۔ حج کی فرضیت قرآن کریم، حدیث شریف اور اجماع امت سے ایسے ہی ثابت ہے، جیسا کہ نماز، روزہ اور زکاۃ کی فرضیت ثابت ہے، جہاںتک حج کے فریضہ کا تعلق ہے یہ مکہ پہنچ کر ادا ہوتا ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر اللہ تعالیٰ کے اس پہلے گھر کی ا ز سر نو تعمیر کی جو خانہ کعبہ یا بیت اللہ کہلاتا ہے اور یہی مسلمانوں کا قبلہ ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حضرت ہاجرہؓ کے بطن سے ایک بیٹے سے نوازا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بڑی بیوی سارا حسد کی وجہ سے انہیں تکلیف دیا کرتی تھی۔جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ سے اذن پاکر حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی ہاجرہؑ اور بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ایک بے آب و گیا ہ جنگل میں چھوڑ آئے جو مرور زمانہ کی وجہ سے بعد میں ایک عالمی شہر بنا۔ آج ساری دنیا سے لاکھوں مسلمان اس یاد کو تازہ کرنے ذوالحجہ کے اوائل میں پہنچتے ہیں اور اسلامی شعائر کے مطابق حج کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔ حج کیسے ادا کیا جاتا ہے۔اس کی تفصیل میں یہاں جانا مقصود نہیں کیونکہ حج پر جانے والے لوگ خوب اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔حج کا فلسفہ کیا ہے۔یہ ہمیں کیا سبق دیتا ہے۔ اس کی طرف اکثر حاجی نہ تو توجہ دیتے ہیں اور نہ اس کے بارے میں سوچ پیدا ہوتی ہے اور حج کی طاقت نہ پانیوالے لوگ بھی اس کی حکمت سے عاری ہیں۔ قرآن کریم کے مطالعہ کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ حج کے ذکر کے ساتھ اللہ تعا ٰلیٰ نے اپنا خوف رکھنے کے مضمون کو باندھ دیا ہے۔ جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیات سے عیاں ہے جس میں حج پر جانے والے لوگوں کو کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو یعنی حج کی عبادت محض اس غرض کے لئے ہے کہ تمہارے دلوں میں تقویٰ پیدا ہو اور تم ما سوا اللہ سے نظر ہٹا کر صرف اللہ تعالیٰ کو ہی اپنی ڈھال بنا لو۔ اگر حج بیت اللہ یا عمرہ سے کسی کو یہ مقصد حاصل نہیں ہوتا تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ اس کا کوئی مخفی کبر اس کے سامنے آگیا ہے۔ اسے چاہئے کہ خلوت کے کسی گوشہ میں اپنے خدا کے سامنے اپنے ماتھے کو زمین پر رکھے اور جس قدر خلوص بھی اس کے دل میں باقی رہ گیا ہو اس کی مدد سے گریہ و زاری کرے اور خدا تعالیٰ کے حضور جھک کر کہے کہ اے میرے خدا ! لوگوں نے بیج بوئے اور ان کے پھل تیار ہونے لگے وہ خوش ہیں کہ ان کے اور ان کی نسلوں کے فائدے کے لئے روحانی باغ تیار ہو رہے ہیں لیکن اے میرے رب! میں دیکھتا ہوں کہ جو بیج میں نے لگایا تھا اس میں تو کوئی روئیدگی پیدا نہیں ہوئی۔ نا معلوم میرے کبر کا کوئی پرندہ اسے کھا گیا ہے یا میری وحشت کا درندہ اسے پاؤں کے نیچے مسل گیا ہے۔پس اے میرے خدا ! میرے اس ضائع شدہ بیج کو پھر مہیا کر دے اور میری کھوئی ہوئی متاع ایمان مجھے واپس کر اور میں اور میری نسلیں تیری رحمتوں سے وافر حصہ لیں۔
اللہ تعالیٰ اس جگہ پر مومنوں کو بتاتا ہے کہ دیکھو ہر وقت تقویٰ کا زاد اپنے ساتھ لو اس سے بہتر اور کوئی زادنہیں جو آخرت کے سفر میں تمہارے کام آنے والا ہے اور حج کے ذکر کے ساتھ یہ ذکر لا کر بتایا کہ اب حج سے تمہاری ذمہ داری بہت بڑھ گئی ہے۔تمہیں اپنے تقویٰ کا پہلے سیبہت زیادہ خیال رکھنا ہوگا۔ جیسے صاف شفاف کپڑوں والا چھو ٹے سے چھوٹے داغ اوردھبے سے بھی بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی دوسرا مقصد ہے جو تقویٰ اور خوف خدا سیپیدا ہوتا ہے۔یعنی استغفار سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنا جس کی طرف سورۃالبقرہ کی انہی آیات میں اشارہ ہے جس کا ذکر میں کر آیا ہوں۔ حج کے دوران ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کرنادراصل استغفار ہی ہے اور دلوں کے زنگ دھونے کا بہترین ذریعہ ہے۔ مگر آج جب حج کی کارروائی ٹیلی ویژن پر ٹیلی کاسٹ ہو رہی ہوتی ہے تو یہ دیکھ کر حیرانگی ہوتی ہے کہ دوران خطبہ حاجی ہاتھ سے یا رومال ہلا ہلا کر اپنے عزیز و اقارب کو خیریت کا پیغام دے رہے ہوتے ہیں اور آوازیں بھی بلند ہو رہی ہوتی ہیں جبکہ سرکار دو عالم حضرت محمد ؐ کا فرمان ہے کہ خطبہ کے دوران کسی کو بولنے کی اجازت نہیں۔ اگر کسی کو خاموش کروانے کی ضرورت بھی پیش آئے تو ہاتھ کے اشارہ سے اسے چپ کروائے۔
تیسرا بڑاسبق سورۃ البقرہ کی انہی آیات 190تا205 میں یہ بیان ہوا ہے کہ‘‘اعلیٰ نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے گھروں میں ان کے پچھواڑے سے داخل ہو بلکہ کامل نیک وہ ہے جو تقویٰ اختیار کرے اور تم اپنے گھروں میں ان کے دروازوں سے داخل ہوا کرو۔’’حج کے ذکر میں یہ نصیحت کرکے دراصل یہ بتانا مقصود ہے کہ کامیابی ہمیشہ ابواب ہی کے ذریعہ آنے سے ہوا کرتی ہے۔اگر تم ایسا نہیں کرتے اور دروازوں سے داخل ہونے کی بجائے دیوار یں پھاند کر اندر داخل ہونا چاہتے ہو تو تمہیں کبھی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔اللہ نے گویا یہ حکم عربوں کے اس دستور کو روکنے کیلئے دیا کہ جب حج کیلئے احرام باندھ لیتے ہیں تو گھر دروازہ سے نہ آتے بلکہ پچھواڑے سے آتے۔ لیکن اس میں بہت باریک حکمت پنہاں ہے۔ اللہ جانتا تھا کہ آخری زمانہ میں مسلمان مختلف برائیوں میں مبتلا ہو جائیں گے اور ہر ناجائز کام کو جائز سمجھ کر کریں گے۔ چنانچہ آج کے دور میں بعض لوگ اس لئے حج پر جاتے ہیں کہ ماتھے پر حاجی کا لیبل جھمکے کا کام دے گا تاکہ وہ ہر کام اپنی مرضی سے کرے اور ہر ناجائز کام کو بھی جائز کہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے نصیحت کی کہ ہر کام کے لئے صحیح راستے اختیار کرو۔وہ راستے جن کی نشاندہی قرآن کریم اور سرکار دو عالم حضرت محمد ؐ نے کی ہے۔
چوتھا سبق حج سے اتحاد و یگانگت کا ملتا ہے جب تمام اطراف سے مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان ایک جگہ اکٹھا ہوتے اور اتحاد اور یگانگت کے سبق کو تازہ کرتے ہیں تو اس طرح ان کے آپس کے وہ تفرقے اور شقاق مٹ سکتے ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو کمزور کر رکھا ہے اور آپس میں اخوت اور محبت کو بڑھانے کے لئے ذی اثر طبقہ کے لوگ مل بیٹھیں اور آپس میں تعاون بڑھانے کے عہدوپیمان کریں اور جس طرح آج دشمنان اسلام مسلمانوں میں تفرقے کی خلیج کو مزید بڑھانے کیلئے ہمہ تن مصروف ہیں یہاں مل بیٹھ کر ایسے منصوبے بن سکتے ہیں جو ان کے منصوبوں کا توڑ ہوں مگر افسوس ہے کہ اس غرض سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھایا جاتا۔
پانچواں مقصد جو تمام مقاصد کا لبِ لباب ہے۔ یہ ہے کہ وہ ہر دکھ سکھ اور چین میں خدا تعالیٰ کو ہی حرز ِجان بنا ئیں۔ خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کریں۔ اپنے دل کو تمام دوسرے مجازی خداؤں سے خالی کریں۔ ایک ہی خدا جو تمام کا خدا ہے دل میں بسائیں۔اسی لئے ایک حاجی کویہ تلقین کی گئی ہے کہ وہ ہر وقت تلبیہ کرتا رہے۔
رابطہ نمبر8175818019