حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمتہ اللہ علی

Taasir Urdu News Network – Syed M Hassan 2 MAY

5 شوال یوم وصال

مفتی محمد سلیم مصباحی قنوج

          اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رشد و ہدایت کے لیے اپنے محبوب بندوں کو مبعوث فرمایا۔ جنہوں نے اپنے علم وعمل کی روشنی میں انسانوں کے قلوب کو منور کیا ہے۔انہیں محبوبان دربار الٰہی میں سے ایک رفیع الشان اور عظیم المرتبت شخصیت سلطان العارفین، زبدۃ السالکین،مرشد سلطان الہند،حضر ت خواجہ عثمان ہارونی چشتی قدس سرہ القوی کی ہے۔

          نام و نسب:

      ٭ آپ کا نام عثمان، کنیت ابو النور، لقب شیخ الاسلام، آپ ہارون یا ہرون کے رہنے والے تھے اس لیے آپ کو ہارونی کیا جاتا ہے۔

          آپ کا سلسلہ نسب گیارہویں پشت میں حضرت مولا علی شیر خدا رضی ﷲ عنہ تک پہنچتا ہے۔

          ولادت باسعادت:

      ٭ حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ کی ولادت باسعادت 536ھ کو قصبہ ہارون یا ہرون خراسان میں ہوئی۔(اہل سنت کی آواز، خانقاہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ)

          ابتدائی تعلیم:

      ٭ حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد کی بارگاہ میں رہ کر حاصل کی، قرآن شریف حفظ کیا، آپ کے والد ماجد جید عالم تھے۔

          اعلیٰ تعلیم:

      ٭ حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ نے اعلیٰ تعلیم کے لیے اس زمانے کے علمی و فنی مرکز نیشاپور کا رخ کیا اور وقت کے مشاہیر علماء و فضلا سے اکتساب علم کر کے جملہ علوم مروجہ و متداولہ میں دسترس حاصل کی۔ جلد ہی آپ کا شمار وقت کے علماء و فضلاء میں ہونے لگا۔

          بیعت و خلافت:

      ٭ حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ تحصیل علوم کی تکمیل کے بعد امام الاولیاء، قطب الاقطاب سرتاج سلسلہ عالیہ چشتیہ بہشتیہ حضرت خواجہ محمد شریف زندنی رحمہ اللہ کے دست حق پرست پرسلسلہ عالیہ چشتیہ میں بیعت ہوئے، اور سلسلہ عالیہ چشتیہ کی خلافت سے سرفراز ہوئے۔نیز حضرت خواجہ مودود چشتی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی فیض یاب ہوئے۔

          عبادت و ریاضت:

      ٭ حضرت خواجہ عثمان ہارنی علیہ الرحمہ صاحب ریاضت و مجاہدہ تھے۔قرآن مجید کے حافظ تھے۔ روزانہ ایک قرآن شریف کی تلاوت کرتے۔سترسال کی مدت تک کسی وقت نفس کو پیٹ بھر کھانا پانی نہ دیا۔رات کو نہ سوئے، تین چار روز کے بعد روزہ رکھتے، کبھی کبھی چار پانچ ہی لقمے پر اکتفا کرلیتے۔

          میر عبد الواحد بلگرامی علیہ الرحمہ

      ٭ حضرت میر عبد الواحد بلگرامی علیہ الرحمہ ان کا تذکرہ یوں فرماتے ہیں:خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ نے دس سال تک خود کو کھانا نہ دیا۔ آپ سات روز کے بعد ایک گھونٹ پانی پیتے، اور عرض کرتے: خدایا! ہمیں نفس کے ظلم سے بچا، نفس مجھ پر غالب آنا چاہتا ہے۔ مجھ سے پانی مانگتا ہے تو میں ایک گھونٹ منہ بھر دیتا ہوں۔خواجہ عثمان ہارونی سماع میں بہت روتے کبھی کبھی زرد پڑ جاتے۔ آنکھوں کا پانی خشک ہو جاتا، جسم مبارک میں خون نہ رہتا۔ ایک زوردار نعرہ لگاتے اور آپ پر وجد طاری ہو جاتا۔

          ہندوستان آمد:

      ٭ حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ سیر و سیاحت کرتے ہوئے ایک مرتبہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس دہلی تشریف لائے اور یہاں تقریباً دو ڈھائی سال قیام فرمایا۔ دہلی میں قیام کے دوران جب سلطان التمش کو آپ کی آمد کا علم ہوا تو خدمت میں حاضر ہوئے اور دعاء کی درخواست کی۔شیخ نے دعا فرمائی اور خواجہ معین الدین چشتی اجمیری سے سلطان التمش کیلئے کتاب مرتب فرمانے کا حکم دیا۔

          بارگاہ الٰہی میں مقبولیت:

      ٭ حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ جب نماز ادا کر لیتے تو غیب سے آواز آتی کہ ہم نے تمہاری نماز پسند کی۔ مانگو کیا مانگتے ہو؟ خواجہ صاحب عرض کرتے: خدایا!میں تجھے چاہتا ہوں۔آواز آتی کہ عثمان! میں نے جمال لا زوال تمہارے نصیب کیا، کچھ اور مانگو کیا مانگتے ہو؟ عرض کرتے: الٰہی! مصطفیٰﷺ کی امت سے گناہ گاروں کو بخش دے۔آواز آتی کہ امت محمدﷺ کے تیس ہزار ۳۰۰۰۰ گناہ گار تمہاری وجہ سے بخشے، آپ کو پانچوں وقت یہ بشارت ملتی۔

          سیرت و خصائص:

      ٭ قطب الاقطاب، ناصرالاسلام، عارف اسرار رحمانی، واصل ذات باری، محبوب صاحب لامکانی، شیخ الاسلام حضرت خواجہ محمد عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کا شمار اکابرین امت اور کبار اولیاءکرام و مشائخ عظام میں ہوتا ہے۔ علوم ظاہریہ و علوم باطنیہ ،شریعت و طریقت، تصوف و معرفت میں مجمع البحرین تھے۔ تاریخ مشائخ چشت میں ہے: در علم شریعت و طریقت و حقیقت اعلم بود۔(بہار چشت)

          کافروں کا قبول اسلام:

      ٭ حضرت میر عبد الواحد بلگرامی رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں: ایک دفعہ خواجہ عثمان ہارونی آدھی رات کے وقت گھر میں تشریف فرما تھے کہ 79 کافروں نے مشورہ کیا کہ آدھی رات کو خواجہ عثمان ہارونی کے پاس چلیں اور کہیں کہ ہم بھوکے ہیں۔ ہر ایک کو نئے طباق میں علاحدہ علاحدہ کھانا دیجیے اور ہر ایک کو جدا گانہ نوع کا۔ اس باہمی مشورے کے بعد جب وہ آپ کی خدمت میں آئے تو خواجہ صاحب نے فرمایا: اے آدم و حوا کے بیٹو! بیٹھ جاؤ اور ہاتھ دھو لو۔ پھر خود﷽ پڑھ کر آسمان کی جانب ہاتھ اٹھائے اور ہر جنس کے مختلف کھانوں سے بھرے طباق جیسا کہ وہ لوگ سوچ کر آئے تھے غیب سے لیتے اور ان کے سامنے رکھ دیتے۔ وہ لوگ بھی مسلسل نظریں جمائے ہوئے دیکھتے رہے کہ طباق غیب سے آ رہے ہیں۔ خیر جب وہ کھانے سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا: خداے تعالیٰ کی نعمت کھا لی؟ اب اس پر ایمان لاؤ۔ انھوں نے کہا: اگر ہم تمہارے خدا و رسول پر ایمان لے آئیں اور مسلمان ہو جائیں تو کیا خدائے تعالیٰ ہمیں بھی تمہاری طرح کر دے گا؟ فرمایا: میں غریب کس گنتی میں ہوں؟ خدائے تعالیٰ تو اس پر قادر ہے کہ مجھ سے ہزار درجے تمہیں بلند فرمائے۔ وہ سب ایمان لے آئے اور خواجہ صاحب کی مبارک صحبت میں رہ کر ان میں سے ہر ایک اللہ کا ولی ہو گیا، ان کی نظروں میں عرش بریں سے لے کر تحت الثریٰ تک سب منکشف ہو گیا۔

          وصال و مدفن:

      ٭ حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ کا وصال 5 شوال المکرم 617ھ مطابق 3 ستمبر 1220ء کو مکۃ المکرمہ میں ہوا۔

آپ کو مکہ مکرمہ کے قبرستان جنت المعلیٰ کے قریب دفن کیا گیا۔