TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN –23 MAY
قیصر محمود عراقی
زندگی کیسی ہے تلخ یا سہل ؟ اس کا جواب درکار ہو تو زندگی پر غور کریں، مگر اسے صرف اپنی آنکھ سے نہ دیکھیں ، اسے فٹ پاتھ پر پڑے اس شخص کی آنکھ سے دیکھیں جسے زندگی کی بنیادی ضروریات میسر نہیں ، اسے محل میں رہنے والے اس شخص کی آنکھ سے دیکھیں جس کے پاس سب کچھ ہے ، بس پیار ، محبت ، اور خلوص نہیں ، اس زندگی کو اس علیل شخص کی نظر سے دیکھیں جسے اس کے طبیب نے جواب دے دیا ہو مگر وہ شخص جینا چاہتا ہے ، لیکن اس کے پاس جینے کے لئے وقت کم ہو ، اور پھر اس زندگی کو اس علیل شخص کی آنکھ سے بھی دیکھیں جس کے مرض کا علاج تو موجود ہے مگر وہ اپنے ٹھیک ہو نے کا کبھی نہ ختم ہو نے والا انتظار کر کے اس قدر تنگ آچکا ہو کہ اب جینا ہی نہیں چاہتا ۔
اس طرح زندگی کا مختلف لوگوں کی آنکھ سے مشاہدہ کریں تو معلوم ہو گا کہ یہ کتنی تلخ ہے ، مگر اس کے تلخ ہو نے کے باوجود ہم اپنے ارد گرد لوگوں پر غور کریں تو کچھ لوگ خوش مزاج ہو تے ہیں، کچھ نرم مزاج ، کچھ شرارتی اور کچھ سنجیدہ لوگ ہو تے ہیں ، یہ جو سنجیدہ لوگ ہو تے ہیں ، یہ تو چلیں زندگی کی تلخیوں سے اُکتا ئے ہو ئے ہو تے ہیں مگر یہ جو خوش مزاج لوگ ہو تے ہیں جنہیں ہم نان سر یس کہتے ہیں ، جو ان کانٹوں سے بھر پور راہوں پر دوسروں کے چہروں پر خوشیاں بکھیرنے میں مصروف ہو تے ہیں ۔ کیا انہیں کوئی دکھ نہیں ہو تا یا پھر ہمارا رب جو نہایت عادل ہے اس نے اتنی بڑی نا انصافی کر دی ہے کہ کچھ لوگوں کو دکھ دیئے اور کچھ کو خوشیاں دے دی ؟ لیکن کیا آپ نے کبھی ان خوش مزاج لوگوں کے پاس بیٹھ کرانہیں وقت دیا ہے ؟ کیا کبھی ان سے ان کی زندگی کے تجربوں پر بات کی ہے ؟ میں کہنا چاہ رہا ہوں کہ ہر شخص چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، امیر ہو یا غریب ، وہ کسی نہ کسی پریشانی کا شکار ضرور ہو تا ہے ۔ ہم میں سے ہر کوئی کسی نہ کسی وجہہ سے گل سڑرہا ہو تا ہے ، بس مختلف لوگوں کی پریشا نی پر ردِ عمل مختلف ہو تا ہے ۔ میں نے لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ یہ غم انسان کو تلخ مزاج کر دیتے ہیں ، مگر میرے خیال میں تو یہ غم آپ کو نرم مزاج کر کے آپ کے اندر ایسے اوصاف ڈال دیتے ہیں کہ آپ دوسروں کا دردسمجھ سکیں کیونکہ صرف خلقت کے اعتبار سے اولاد آدم ہو نا آپ کو انسان نہیں بناتا بلکہ دوسروں کے درد کو محسوس کر کے آپ حقیقی انسان بنتے ہیں ، کیونکہ اپنا درد تو جانور کو بھی محسوس ہو تا ہے ، انسان تو وہ ہے جو دوسروں کے درد بھی محسوس کرے ۔ بہر حال زندگی بالکل بھی مشکل نہیں ہے ہم نے اسے مشکل بنا رکھا ہے ۔ ہم نے اپنی بے جا خواہشات کے انبار لگا کر اسے مشکل بنا رکھا ہے ، یہ ایسی خواہشات ہو تی ہیں جو کبھی پوری نہیں ہو تی ۔ بلکہ آپ کے مر نے پر بھی آپ کے جنازے سے بیوائوں کی طرح لپٹ لپٹ کر بین کر تی ہیں کہ ہمیں کون پورا کرے گا ؟ اب دماغ میں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ زندگی کو آسان کیسے بنایا جا ئے ؟ ہم کبھی اتنی مشکلات کی گر فت میں آجا تے ہیں کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں کوئی سننے والا ہو ، کوئی ایسا شخص موجود ہو جس کے سامنے ہم دل کھول کر رولیں ۔ تو ایسا دوست ہم اس ذات کو کیوں نہیں بنا لیتے جس نے ہمیں تخلیق کیا ؟ جس کے ایک کُن کہنے پر سورج رات کی تاریکی توڑ کر صبح تخلیق کر تا ہے ، وہ ذات اگر نہ چاہے تو آپ سوچ بھی نہیں سکتے ، تو پھر سب جانتے ہو ئے بھی آپ اپنی ذات کا پہلو اس ذات کو کیوں نہیں سونپ دیتے جو ہر چیز پر قادر ہے ؟ جس نے مشکل میں ڈالا ہے وہ مشکل سے نکال بھی تو سکتا ہے ۔زندگی میں ہم کبھی ایسے مقام پر بھی آ جاتے ہیں جہاں سارے رشتے ختم ہو جا تے ہیں ، وہاں صرف ہم اور ہمارا اللہ ہو تا ہے کوئی ماں ، باپ ، بہن ، بھائی اور دوست نہیں ہو تا پھر ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہمارے پیروں کے نیچے نہ زمین ہے نہ سر کے اوپر آسمان ۔ بس ایک اللہ ہے جو ہمیں اس خلا میں تھامے ہو ئے ہے ۔پھر پتا چلتا ہے کہ ہم زمین پر مٹی کے ایک ذرے یا درخت پر لگے ایک پتے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے ۔ دنیا میں تمام محبتوں کو زوال حاصل ہے ، تو پھر ہم لوگ اس سے محبت و دوستی کیوں نہیں کر لیتے جو لا زوال ہے ؟ آدمی اللہ کو یاد بھی تب کر تا ہے جب درد کا ، غرض کا یا پھر مرض کا مارا ہو ۔ ہم اگر بغیر غرض کے اس ذات کے ہو جائیں تو ہمیں اطمینان حاصل ہو جا ئے گا ۔ اس وقت ہم اپنے ارد گر لوگوں کو دیکھیں ، انہیں سنیں ، ان کے پاس بیٹھیں تو معلوم ہو گا کہ زندگی تو ہر ایک کی مشکل ہے ۔ مگر ہمارے آس پاس موجود سو فیصد لوگوں میں سے ایک فیصد لوگ ایسے بھی ہو تے ہیں جنہیں لگتا ہے کہ زندگی آسان ہے ۔ بہر حال تحریر کے اختتام پر یہی کہنا چاہونگا کہ کبھی تنہا بیٹھ کر اپنی زندگی اور اس کے مسائل پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ آپ کے بھی تمام در کھلے ہیں ، ز ندگی نہایت آسان ہے بس اُس ذات سے اپنا تعلق مضبوط کر لیں جو ہر چیز پر قادر ہے ۔ سورہ یوسف سکھاتی ہے کہ بیمار صحت یاب ہو جا تے ہیں ، کھوئے ہو ئے مل جا تے ہیں ، مشکلیں آسانیوں میں بدل جا تی ہیں اور غم خوشیوں میں بدل جا تے ہیں اور بے شک یہ سب اللہ کی مرضی سے ہو تا ہے ۔ لہذا اسی پر انحصار کریں جس کی مٹھی میں سب ہے ، وہ وہی کرتاہے جو بہترین ہو تا ہے ۔ انسان کی عقل محدود ہے ۔ جبکہ وہ جو ہماری زندگی کا مالک ہے اس کی عقل لا محدود ہے ۔ اگر ہم اللہ کی رضا میں اپنی رضا جان کر خوش ہو جا تے ہیں تو اس مشکل وقت میں بھی اللہ ہمارے دلوں میں سکون ڈال دیتا ہے اور اگر اس سے دور ہو جا ئینگے تو خوار ہو جائینگے ۔
Mob:6291697668