TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN –30 MAY
محمد اشفاق سلفی
مدرس دار العلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ بہار
حج اور عمرہ زندگی میں ہر مستطیع مسلمان (مرد ہو یا عورت) پر ایک مرتبہ فرض ہے اور اس عظیم بدنی اور مالی عبادت کا ثواب گناہوں سے مکمل مغفرت ہے ۔ حج مبرور کی جزا جنت ہے۔ بشرطیکہ اخلاص اور سنت صحيحہ کی پیروی کے ساتھ مناسک حج و عمرہ ادا کئے جائیں اور ريا و نمود اور بدعات وسیئات سے پرہیز کیا جائے ؛ حج کی مقبولیت کی دلیل ہے کہ حاجی کی حالت حج کے بعد پہلےسے بہتر ہو جائے اور وہ نیکیوں پر ہمیشہ کار بند رہے، بعض حضرات حج کا طویل سفر اور موٹی رقم خرچ کرنے کے باوجود بدعتوں کا ارتکاب یا سنتوں کی خلاف ورزی کے سبب ثواب سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ذیل میں حجاج کرام کی بعض غلطیوں کی نشاندہی کی جارہی ہے اللہ تعالی حق و صواب کی پیروی کی توفیق بخشے۔
حجاج کرام کی غلطیاں:
(۱) بعض حجاج كرام حج يا عمرہ کی نيت الفاظ کے ذريعے یوں کرتے ہیں ” اللهم اني نويت الاحرام بالحج تمتعا أو قارنا أو مفرداً الخ’یعنی اے اللہ ! میں نے حج تمتع ، یا حج قران یا حج افراد کی نیت سے احرام باندھا ہے ، حالاں کہ نیت دل کے ارادہ کا نام ہے اور اس کو الفاظ کے ذریعہ ادا کرنا غیر مشروع عمل ہے ۔ ایک مرتبہ حج یا عمرہ کی وضاحت کرنا مثلا لبیک عمرہ یا لبیک حجا کہنا مسنون ہے لیکن حج یا عمرہ کی نیت کو مذکورہ الفاظ کے ذریعہ بلند آواز سے ادا کرنا ایک دوسری چیز ہے جو کہ غیر ثابت عمل ہے۔
(۲) طواف کا آغاز حجر اسود سے ہوتا ہے. حجر اسود کو بوسہ دینا، یا اسے ہاتھ یا دیگر شی سے چھو کر اسے چومنا مسنون ہے. البتہ ازدحام کی وجہ سے تقبیل اور لمس ممکن نہ ہو تو تکبیر کہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ کرنا اور آگے گذر جانا چاہئے پھر ایسی صورت میں اپنے ہاتھ کو بوسہ نہیں دینا چاہئے . حجر اسود کو بوسہ دینے کے لئے دوسروں کو ایذا پہنچانا غیر مناسب فعل ہے ، طواف کے دوران رکن یمانی کو صرف چھونا مشروع ہے۔ اس کو بوسہ دینا ثابت نہیں ہے۔ مگر بہت سے حجاج رکن یمانی کو بھی بوسہ دیتے یا اسے چھو کر اپنے ہاتھ کو چومتے ہیں جو سراسر غلط ہے، بلکہ بعض حجاج کعبہ کے چاروں گوشوں کو چھوتے اور چومتے ہیں ، غلاف کعبہ کو چومتے ہیں، مقام ابراہیم کا بوسہ لیتے ہیں۔ یہ تمام افعال غلط ہیں، نبی ﷺ کا قول و عمل ہمارے لئے بہترین اسوہ اور نمونہ ہے .
(۳) طواف کے آغاز میں یا ہر چکر میں الگ الگ دعا جیسا کہ آج کل اکثر حجاج پڑھتے ہیں ثابت نہیں ، البتہ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان طواف کے ہر چکر میں “رَبَّنَا آتِنَا في الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ” پڑھنا ثابت اور مسنون ہے؛ لہذا طواف کے دوران ذکر واذکار ، تلاوت آیات اور دنیا و آخرت کے بھلائی کی دعائیں مانگنی چاہئیں۔ اُس کے لئے کوئی مخصوص دعا مخصوص الفاظ کے ساتھ وارد نہیں ہے۔
اسی طرح صفا و مروہ کی ہر سعی کی دعا بھی وضع کر لی گئی ہے، جب کہ صحیح حدیثوں سے صرف اس قدر ثابت ہے کہ نبی اکرم ﷺ صفا سے سعی کا آغاز کرتے اور آیت کریمہ ” إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِر الله” اور “ابدَأُ بِمَا بَدَأ اللَّهُ بِهِ” کہتے ۔ پھر قبلہ کا استقبال کر کے اللہ اکبر کہتے اور یہ کہتے “لا اله الا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد يحيي ويميت وهو على كل شيء قدير لا اله الا الله وحده، أنجز وعده ونصر عبده وهزم الاحزاب وحده “اس کو تین مرتبہ دہراتے اور اس دوران دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر دعا بھی کرتے جیسا کہ صحیح مسلم میں جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہما کی طویل حدیث میں آیا ہے۔ بہت کم لوگ ان مسنون کلمات اور دعاؤں کا اہتمام کرتے ہیں، پھر آپﷺ مروہ کی طرف چلتے اور نشیب میں آتے ، جسے دوہرے نشانوں سے نشان زد کر دیا گیا ہے، تو دوڑتے ۔ دوران سعی ذکر و تلاوت اور دعا میں مشغول رہتے ۔ دوران سعی ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے “رب اغفر وارحم وأنت الأعز الأكرم“ کہنا ثابت ہے.
(۴) عمرہ سے حلال ہونے کے لئے بعض حضرات اپنے سر کے چند بالوں کو چھوٹا کرتے یا کراتے ہیں جب کہ مشروع یہ ہے کہ پورے سر کے بالوں کو منڈایا جائے یا چھوٹا کرایا جائے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:مُحلّقینَ رؤسَکُم وَ مقصِّرِیْن”یعنی اپنے سروں کو مونڈے اور چھوٹا کرائے ہوئے ۔ البتہ عورتیں اپنے سر کے بالوں کی چوٹی سے انگلی کی ایک پوڑ کے مانند چھوٹا کرائیں گی۔ ان کے لئے حلق (بال مونڈ وانا ) جائز نہیں ہے۔
(۵) بعض حجاج کرام عرفہ کے دن بجائے وادی عرفہ کے وادی عرنہ میں ٹھہر جاتے ہیں اور وہیں سے مزدلفہ کے لئے روانہ ہو جاتے ہیں اور اس طرح ان کا حج فاسد ہو جاتا ہے۔ نماز ظہر و عصر ( جو قصر و جمع کے ذریعہ ادا کی جاتی ہے ) تک وادی عرنہ میں ٹھہرنا مستحب ہے اور ادائیگی نماز کے بعد ذکر و اذکار اور دعا و مناجات کے لئے غروب آفتاب تک وادی عرفہ میں ٹھہرنا رکن حج ہے جس کے فوت ہو جانے سے حج فوت ہو جاتا ہے . اس طرح بہت سے حجاج مرد اور عورت وادی عرفہ میں جبل رحمت نامی پہاڑ پر چڑھنے میں اپنا قیمتی وقت ضائع کر دیتے ہیں، حالاں کہ اس کی کوئی اصلیت و فضیلت ثابت نہیں ہے ۔ وادی عرفہ میں جہاں جگہ ملے ٹھہر جائیں اور دعا و تلاوت میں غروب آفتاب تک مشغول رہیں ، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ عرفہ کی دعا سب دن سے بہتر دعا ہے اور سب سے بہتر کلمات جو میں نے اور مجھ سے قبل انبیاء کرام (علیہم الصلاۃ والسلام ) نے کہے ہیں وہ یہ ہیں ” لا اله الا الله وحده لا شريك له، لہ الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير ( صحیح سنن الترمذی للالبانی ۱۸۴/۲عن ابن عمر ) مزدلفہ کے لئے غروب آفتاب کے بعد نکلنا چاہئے لیکن مغرب کی نماز عرفات میں یا راستہ میں نہیں پڑھنی چاہئے بلکہ مزدلفہ پہنچ کر عشاء کے وقت ایک اذان اور دو اقامت سے ایک ساتھ پہلے مغرب کی نماز تین رکعت پھر عشاء کی نماز دو رکعت پڑھنی چاہئے ، بعض حجاج کو مزدلفہ کے راستے میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا جاتا ہے جو کہ خلاف سنت ہے۔
(٦) چنےکےدانےسےتھوڑی بڑی کنکریوں سے رمی جمار مسنون ہے ، نیز یہ بات ملحوظ رہے کہ کنکریاں دائرہ کے اندر گریں ، ورنہ دوبارہ رمی کریں۔ بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے اگر ایک کنکری مثلا دائرہ کے اندر نہ گرے تو اس کی جگہ دوسری کنکری استعمال کرنا افضل ہے اور اگر ساتھ میں فاضل کنکری نہ ہو تو ان شاء اللہ چھ عدد کنکریاں جو دائرہ کے اندر گری ہیں وہی کافی ہونگی۔
واضح ہو کہ دسویں ذی الحجہ کو چاشت کے وقت صرف جمرہ عقبہ کو سات کنکریاں ماری جاتی ہیں اور گیارہ، بارہ اور تیرہ ذی الحجہ کو تینوں جمرات کو سات سات کنکریاں زوال آفتاب کے بعد ماری جاتی ہیں اور یہ عمل جمرۂ صغری سے شروع ہو کر جمرہ عقبہ پر ختم ہوتا ہے۔ ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہنی چاہئے اور جمرہ اولی (صغری) کی رمی کے بعد طویل دعا مانگنی چاہئے ، پھر جمرۃ وسطی کو کنکریاں مارنے کے بعدبھی لمبی دعا کرنی چاہئے اور اخیر میں جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے کے بعد دعا کئے بغیر وہاں سے واپس ہو جانا چاہئے ۔ (رواہ البخاری عن ابن عمر ) بعض حجاج دوسروں کو رمی جمرات کے لئے مکلف کر دیتے یا انہیں اپنا وکیل بنا دیتے ہیں اور خود رمی جمرات کئے بغیر وطن واپس ہو جاتے ہیں۔ یہ عمل نا جائز ہے۔ اگر حاجی بنفس نفیس رمی جمرات پر قادر ہو تو اس کے لئے کسی کو وکیل بنانا درست نہیں ہے، کیوں کہ جب اس نے خود ہی حج شروع کیا ہے تو اس کی تکمیل بھی اسی پر فرض ہے اور اگر خود عاجز ہو تو وکیل کے رمی جمار کر لینے سے قبل سفر کرنا اس کے لئے جائز نہیں ہے۔ نیز ضروری ہے کہ عاجزی کی صورت میں رمی کرنے والا وکیل خود بھی اس سال حج کرنے والا ہو۔ غیر مکلف اور غیر حاجی شخص رمی جمار کے لئے وکیل نہیں بن سکتا۔ کچھ لوگ طواف وداع کے لئے بھی دوسرے کو وکیل بنادیتے ہیں اور خود طواف وداع نہ نہیں کرتے ۔ حالاں کہ ایسی صورت میں وہ گنہگار ہوتے ہیں اور طواف وداع نہ کرنے کے سبب ان پر ایک قربانی واجب ہوتی ہے جس کا حرم میں ذبح کرنا اور وہاں کے فقراء پر صدقہ کرنا واجب ہے۔ حائضہ یا نفاس والی عورتیں سفر کی مصلحت کے پیش نظر طواف وداع کئے بغیر وطن لوٹ سکتی ہیں بشرطیکہ انہوں نے طواف افاضہ بحالت طہارت کر لیا ہو، لیکن اگر عورت طواف افاضہ سے قبل حائضہ یا نفاس والی ہو جائے تو طہارت کا انتظار کرنا اور طواف افاضہ کر کے لوٹنا واجب ہے اور اگر انتظار ممکن نہ ہو لیکن طواف کے لئے دوبارہ واپسی ممکن ہو تو اس کے لئے سفر کر لینا جائز ہے پھر پاکی کے بعد طواف افاضہ کے لئے وہ پلٹے گی اور اگر دور دراز کی رہنے والی ہو اور دوبارہ واپسی ممکن نہ ہو تو اہل علم کی ایک جماعت کے نزدیک جس میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور علامہ ابن القیم رحمہما اللہ بھی ہیں ،جائز ہے کہ ایسی عورت کپڑے وغیرہ رکھ کر لنگوٹ کس لے اور خون سے بچاؤ کا طریقہ اختیار کرنے کے بعد کعبہ میں داخل ہو کر حج کی نیت سے طواف افاضہ کر لے اور اپنے سفر پر روانہ ہو جائے ۔ اور اگر کسی مرد یا عورت نے طواف افاضہ کو مؤخر کیا ہو اور مکہ سے نکلتے وقت طواف افاضہ کرے تو یہی طواف ،طواف وداع سے بھی کفایت کر جائے گا.
(۷) بعض حجاج کرام مکہ میں قیام کے دوران مقام تنعيم سے بار بار عمرہ کرتے ہیں جسے عرف عام میں عمرہ مکیہ کہا جاتا ہے . یہ عمل بھی خلاف سنت ہے ، نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم یا آپ کے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم سے ایسا ثابت نہیں ہے۔ صرف عائشہ رضی اللہ عنہا نے مقا م تنعيم سے حج سے فراغت کے بعد اپنے بھائی عبد الرحمن بن ابی بکر رضي اللہ عنہ کی معیت میں عمرہ کیا تھا کیوں کہ وہ مکہ آ کر حائضہ ہوں گئیں اور اس کے سبب عمرہ نہ کر سکیں اس لئے وہ الگ سے عمرہ ادا کرنے پر اصرار کرنے لگیں تو آپ ﷺ نے انہیں اجازت مرحمت فرمائی۔ اس ایک واقعہ کے علاوہ کسی صحابی سے حج سے فراغت کے بعد دوبارہ مقامتنعيمسے عمرہ کرنا ثابت نہیں ہے .
(۸) بعض حضرات جو سعودی عرب میں ملازمت کرتے ہیں وہ اپنے زندہ والدین اور دوسرے رشتہ داروں کی طرف سے عمرہ و حج کرتے رہتے ہیں۔ حالاں کہ زندہ شخص جو حج و عمرہ پر قادر ہو اور سواری پر بیٹھ سکتا ہو اس کی جانب سے واجب حج و عمرہ کرنا باجماع اہل علم درست نہیں ہے۔ بلکہ نفلی حج وعمرہ بھی راجح قول کے مطابق درست نہیں ہے۔ البتہ اموات کی طرف سے حج وعمرہ کیا جا سکتا ہے یا پھر ایسے زندہ اشخاص کی طرف سے کیا جا سکتا ہے جو کبر سنی یا مرض مزمن (دائمی) کے سبب حج کی طاقت نہ رکھتے ہوں جیسا کہ صحیحین میں ابن عباس سے مروی ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر قبیلہ خعمن کی ایک عورت نے اپنے بوڑھے والد کی جانب سے حج کا مسئلہ دریافت کیا جو سواری پر بیٹھ نہ سکتے تھے تو آپ ﷺ نے اس کی طرف سے حج کی اجازت مرحمت فرمائی . اموات یا معذور کی جانب سے حج کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ پہلے اپنی جانب سے واجب حج و عمرہ ادا کر لے پھر دوسرے کی نیابت کرے ، جیسا کہ سنن ابی داؤد میں ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو تلبیہ کہتے ہوئے سنا وہ کہہ رہا تھا لبیک عن شبرمہ یعنی شبرمہ کی جانب سے لبیک، تو آپ ﷺ نے دریافت کیا ، شبرمہ کون ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میرا بھائی یا قریبی ہے آپ نے دریافت کیا کہ کیا تم نے اپنی طرف سے حج کر لیا ہے؟ اس شخص نے نفی میں جواب دیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا “حج عن نفسك ثم حج عن شبرمةپہلے اپنی جانب سے حج کرو پھر شبرمہ کی جانب سے۔ (بیہقی نے کہا ہے کہ حدیث کی سند صحیح ہے اور اس باب میں اس سے زیادہ صحیح روایت نہیں ہے )۔
(۹) بعض لوگ مسجد حرام سے الٹے پاؤں واپس ہوتے ہیں تا کہ کعبہ کو پشت نہ دکھائیں۔ حالاں کہ شریعہ اسلامیہ اس طرح کے تکلف سے پاک ہے، عام مسجدوں سے نکلنے کے جو طریقے اور دعائیں منقول ہیں وہی سب کچھ مسجد حرام کے لئے بھی ہیں ۔
(۱۰) حج کے جملہ مناسک مکہ ہی میں ادا ہو جاتے ہیں ، مناسک حج و عمرہ کا تعلق مدینہ نبویہ سے نہیں ہے۔ البتہ مسجد نبوی کی زیارت مشروع و مستحب ہے اور اس میں ایک نماز ادا کرنے کا ثواب دیگر مساجد میں ایک ہزار نماز ادا کرنے سے بڑھ کر ہے سوائے مسجد حرام کے (صحیح مسلم ) مسجد حرام کی ایک نماز مسجد نبوی کی ایک سو نماز اور دیگر مساجد کی ایک لاکھ نمازوں سے بہتر اور افضل ہے۔ بہر حال ثواب طلبی کی غرض سے مسجد نبوی کی زیارت کرنی چاہئے اور ضمنا قبر رسول ﷺ اور قبر شیخین ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی زیارت بھی کرنی چاہئے. لیکن ہر نماز کے بعد قبر رسول ﷺ پر حاضری دینا اور درود و سلام پڑھنا یا قبر کا طواف کرنا یا جالیوں کو بوسہ دینا یا صاحب قبر سے فریاد کرنا وغیرہ بدعت و حرام ہیں بلکہ ان میں بعض تو شرکیہ اعمال ہیں اس لئے حجاج کرام کو غیر مشروع عملوں سے پورے طور پر اجتناب کرنا چاہئے تا کہ حج و عمرہ اور زیارت کا ثواب رائیگاں نہ ہو۔
پھر مدینہ میں صرف مسجد نبوی اور مسجد قبا کی زیارت باعث خیر و برکت اور ذریعہ حصول ثواب ہے۔ ان کے علاوہ کسی مسجد یا مقام کی زیارت کا کوئی ثواب شریعت میں نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ حجاج و زائرین اور تمام مسلمانوں کو سنت نبوی کے مطابق اور رضائے الٰہی کی خاطر اعمال کی بجا آوری کی توفیق بخشے اور انہیں شرف قبولیت سے نوازے ،،، آمین
***