مــذہبـــی رواداری

TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN –9  MAY

رواداری جمہوریت کی روح سمجھی جاتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایک ایسا انسانی رویہ ہے کہ ایک شخص کی بات یا نظریہ گرچہ ہمارے مواقف نہ ہو لیکن ہمارے اندر وسیع النظری اور کشادہ دلی ہونی چاہئے کہ ہم اس کے نقطہ نظر یا نظریہ کو خوش دلی کے ساتھ سنیں اور اس کا احترام کریں۔ اگر ہمارے اندر ایسی وسیع القلبی نہیں ہے تو ہم رواداریت کے علمبردار نہیں کہے جاسکتے اور میرے خیال میں دنیا کا کوئی مذہب ایسا نہیں ہے جس نے رواداری کا سبق نہ دیا ہو۔ خصوصاً اسلام میں تو یہ رواداری بدرجہ اتم موجود ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ رواداری مذہب کے وسیلے سے وجود میں آئی ہے، اس لئے اس کا تعلق اخلاقی صفات سے ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ خدائے بزرگ و برتر کو ہماری عبادت و ریاضت کی ضرورت نہ تھی مگر اللہ تعالیٰ کی بے شمار مخلوق ہماری محبت، رواداری، حسن سلوک اور احسان و نیکی کی حاجت مند ہے۔ اس لئے ہمارے صوفیائے کرام نے حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کو بھی اپنی زندگی کا نصب العین بنایا۔ان کی اسی عملی کوشش سے ہندوستان جنت نشان ملک میں رواداری کے جذبے کو زیادہ فروغ ملا۔
قومی یکجہتی، وسیع المشربی، مذہبی رواداری اور یگانگت پوری دنیا میں بالعموم اورہندوستان میں بالخصوص صوفیائے کرام کی مرہون منت ہے۔ ہندوستان میں سلسلہ چشتیہ کے بانی حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ ہیں۔ آپ کا زمانہ ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے سخت ناسازگار تھا مگر آپ کی محنت، کوشش، حسن سلوک اور رواداری نے تصوف کے وسیلے سے انسان دوستی کے جذبات کو عملی طور پر عوام تک پہنچایا۔
سلسلۂ چشتیہ کے دوسرے مشہور صوفی بزرگ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ ہیں۔ آپ نے اپنی خانقاہ دلّی میں بنائی۔ مہرولی شریف آج بھی مرجع خلائق خاص و عام ہے۔ آپ کی خانقاہ روحانی فیوض و برکات کا سرچشمہ تھی۔ آپ مخلوق خدا کی روحانی اور سماجی زندگی کی رہنمائی فرماتے۔ ہر قسم کے لوگ نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی آپ کی خانقاہ میں آتے اور محبت و اخوت کے پیغامات سے اپنے دلوں کومنور کرتے۔
سلسلۂ چشتیہ کے تیسرے مشہور و معروف بزرگ حضرت شیخ بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ ان صوفی سنتوں میں تھے جنہوں نے قلیل مدت میں ہی عوام کے دلوں میں گھر کرلیا تھا۔ آپ کی شخصیت میں پیار، محبت، ملنساری اور رواداری کا جو جذبہ تھا اس کی وجہ سے مختلف عقائد کے لوگ آپ کا بے حد احترام کرتے تھے۔ آپ موت کو ہمیشہ یاد رکھتے اور فرماتے کہ ’’انسان دریا کے کنارے لگے اس درخت کی مانند ہے جو ایک نہ ایک دن گرجاتا ہے۔ اس لئے انسانوں کو چاہئے کہ وہ نرم اور ملائم گھاس کی طرح بنیں۔‘‘ آپ کی انسان دوستی اور مذہبی رواداری سے متعلق ایک اہم واقعہ امیر حسن سنجری نے ’’فوائد الفواد‘‘ میں رقم کیا ہے کہ ایک بار کسی شخص نے آپ کو ایک قینچی نذر کی۔
بابا صاحب نے فرمایا کہ ’’مجھے سوئی دیجئے کیوں کہ میں سیتا ہوں کاٹتا نہیں ہوں۔‘‘حضرت بابا فریدؒ دراصل قومی یکجہتی اور مذہبی رواداری کے باب میں ایک مینارۂ نور تھے اور وہ برابر ہندو اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کی بہتر فہم کے ذریعہ قریب لانے کی کوشش کرتے رہے۔ آپ نے زندگی بھر محبت کا راستہ اختیار کیا۔ آپ کی اسی محبت اور مذہبی رواداری کے جذبے نے آج تک آپ کو ہندو مسلمان اور سکھوں کی آنکھوں کا تارا بناکر رکھا ہے۔سلسلۂ چشتیہ کے ہی معروف بزرگ حضرت شیخ خواجہ نظام الدین اولیاء کی ذات بابرکات ہمیشہ ہندوئوں اور مسلمانوں نیز ہندوستان میں رہنے والے تمام فرقوں اور طبقوں کے لئے وجہ اتحاد سمجھی گئی ہے۔ آج بھی آپ کے آستانے پر ہر روز اور ہر سال ہزاروں لاکھوں بندگانِ خدا کی حاضری آپ کی محبوبیت اور مذہبی رواداری کی غماز ہے۔ آپ کے متعلق ایک واقعہ اس طرح مشہور ہے کہ ایک بار دریا کے کنارے ہندوئوں کا ایک بہت بڑا میلہ لگ رہا تھا اور دور دراز سے لوگ اس میلے میں شرکت کے لئے آرہے تھے۔
آپ کی توجہ بھی اس میلے کی طرف مبذول کرائی گئی تو آپ نے فرمایا کہ ’’ہر قوم کا ایک دین اور ایک قبلہ گاہ ہوتی ہے جو سب کے لئے قابل احترام ہے۔‘‘ آپ کی زبان فیض ترجمان سے نکلا ہوا یہ جملہ بھی صلح کل، امن و آشتی اور مذہبی رواداری کے جذبوں کو فروغ عطا کرتا ہے۔
حضرت امیر خسرو بھی سلسلۂ چشتیہ کے بڑے باکمال بزرگ ہیں۔ ان کی پوری ہندوی شاعری مذہبی رواداری اور وسیع القلبی کی ترجمان ہے۔ یہ سلسلہ حسن اخلاق، انسان دوستی، وسیع المشربی اور مذہبی رواداری کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور رہا ہے۔ اس سلسلے کے صوفیائے کرام اور بزرگان عظام نے ہندوئوں کے ساتھ خوش گوار اور برادرانہ تعلقات قائم رکھے اور اس ملک کی تہذیبی زندگی میں اپنا مقام بنایا۔ اس سلسلے کے سجادگان آج بھی اپنے پیرانِ سلاسل کے طریقوں پر چل رہے ہیں اور پورے ملک میں امن و امان اور مذہبی رواداری کا ماحول پیدا کرنے کی کوششوں میں ہمہ جہت مصروف ہیں۔مذہبی رواداری اور یگانگت کا مطالعہ اگر تاریخ کے آئینے میں کریں تو یہاں بھی ہندو اور مسلمان شیر و شکر نظر آتے ہیں۔ مسلمانوں کے تہواروں میں برادرانِ وطن شریک ہوتے ہیں اور ان کے تہواروں میں مسلمان۔ دونوں کی آپس میں کوئی منافرت اور مغائرت نظر نہیں آتی۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ مسلم سلاطین نے اپنے دور حکومت میں ہندوئوں کو بڑے بڑے اعزازات و مناصب سے سرفراز کیا اور ہندو راجائوں نے مسلمانوں کو اونچے اونچے عہدوں پر مامور کیا اور حکومت کے اہم معاملات و مسائل کو حل کرنے میں ان کی رائے کو فوقیت دی۔ بادشاہ ہمایوں، شہنشاہ اکبر، رانا پرتاپ سنگھ اور شیواجی کے دور حکومت کے کئی ایسے واقعات اور کئی ایسی سچائیاں موجود ہیں جو ہماری قومی یکجہتی اور مذہبی رواداری کے جذبوں کو زیادہ طاقتور اور پُروقار بناتی ہیں۔ شاہی زمانے میں ہندو اور مسلم فرماروائوں کے علاوہ عوام بھی ایک دوسرے کے تہوار میں شامل ہوتے۔ مسلمان ہولی میں اپنے ہندو احباب کے ساتھ رنگ کھیلتے، دیوالی، دسہرہ اور ’رام لیلا‘ وغیرہ کی محفلوں میں شریک ہوتے تھے۔ عید، محرم اور ’شب برات‘ میں ہندو برادران بھی مسلمانوں کی خوشی اور غم کی محفلوں میں شرکت کرتے۔ ہندوئوں اور مسلمانوں کے اس آپسی میل جول، اتحاد و اتفاق کی وجہ سے قومی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کے جذبات عام ہوتے نظر آتے ہیں۔
ہندوستانی شاعروں اور ادیبوں نے بھی مذہبی رواداری کی ترویج و اشاعت میں نمایاں رول ادا کیا ہے۔ ملاّ وجہی جو مذہب کے سخت پابند تھے، انہوں نے رامائن کا منظوم ترجمہ فارسی زبان میں کیا۔ مسلمانوں نے بھی ہندی زبان میں کچھ کم کارنامے انجام نہیں دیے۔
ملک محمد جائسی، عبدالرحیم خان خاناں، رس کھان اور حضرت امیر خسرو نے ہندی شاعری کو مالا مال کیا۔ خسرو کی شاعری اور رحیم و کبیر کے دوہوں نے انسانی اخوت کو جگایا جس کے جلو میں بھکتی تحریک اور صوفی تحریک پروان چڑھی۔ اردو شاعری میں بھی چکبستؔ، محروم، جگن ناتھ آزاد اور چندر پرکاش جوہرؔ بجنوری نے مذہبی رواداری کے جذبے کو اعتبار و وقار عطا کیا۔ اس باب میں نظیر کی شاعری بالخصوص قومی یکجہتی اور مذہبی رواداری کا برملا اظہار ہے۔ ان کے یہاں بزرگان دین کی شان میں نظمیں ملتی ہیں تو ’بلدیوجی کا میلہ‘، ’جنم کنہیا جی‘ اور ’نانک‘ جیسی نظمیں بھی موجود ہیں۔
انہوں نے اگر اسلامی روایات کے پیش نظر ’عید‘ اور ’شب برات‘ جیسے موضوعات پر اثر انگیز نظمیں لکھی ہیں تو ہولی، دیوالی اور ’رکھشابندھن‘ جیسی نظمیں بھی ان کی قومی یکجہتی اور مذہبی رواداری کے جذبوں کو آشکار کرتی ہیں۔
اقبال کی شاعری بھی وسیع المشربی، وطن دوستی اور مذہبی رواداری کی امین ہے۔ انہوں نے اگر ایک طرف غالبؔ و داغؔ اور حالیؔ و شبلیؔ کی عظمت کے ترانے گائے ہیں تو شیکسپیئر، مارکس، لینن اور مسولینی کی عظمت کا بھی اعتراف کیا ہے۔ اقبال کے یہاں حضور رسالت مآبؐ میں، بلاد اسلامیہ، مسجد قرطبہ، ذوق و شوق اور ’خضر راہ‘ جیسی ملت اسلامیہ سے متعلق نظمیں ملتی ہیں تو وہیں ان کی کلیات میں بھرتری ہری، سوامی رام تیرتھ، شری رام اور گرونانک کی عظمت و بلندی کا بھی اعتراف دکھائی دیتا ہے۔ ان نظموں کے ہر شعر سے اقبال کی مذہبی رواداری اور اپنے وطن کے عظیم فرزندوں کے تئیں ان کے احترام و اعتراف کی پردہ کشائی ہوتی ہے اور ہمیں ایک ایسے شاعر کے بطون کا سراغ ملتا ہے جس نے تنگ نظری، تعصب اور دوئی کی دیواروں کو اپنے قلم کے وار سے منہدم کر دیا ہے۔ چناں چہ اقبال کی نظم ’نیا شیوالہ‘ ہندو مسلم اتحاد و قومی یکجہتی اور مذہبی رواداری کے موضوع پر ایک بہترین نظم ہے اور اس کا یہ شعر ساری دنیا کے لئے مشعلِ راہ ہے ؎
شکتی بھی شانتی بھی بھکتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے
اردو نثرنگاروں نے بھی مذہبی رواداری اور قومی یکجہتی کے تصورات کی آبیاری کی ہے۔ خاص طور پر اردو فکشن نے اس جذبے کو زیادہ عام کیا ہے۔ اس سلسلے میں پریم چند، کرشن چندر، سہیل عظیم آبادی، بیدی، عصمت، منٹو، غلام عباس، قرۃ العین حیدر، انتظار حسین، حیات اللہ انصاری، کلام حیدری، جوگندر پال، عبدالصمد اور حسین الحق تک کتنے ہی افسانہ و ناول نگار ہیں جو مذہب اور رنگ و نسل کے امتیاز سے بالاتر ہیں اور جن کی تحریریں انسان دوستی کی علمبردار اور مذہبی رواداری کا سرچشمہ ہیں۔
الغرض یہ کہ ہمارے سامنے صوفیاء، سلاطین، شعراء، ادباء کی شاندار روایات موجود ہیں۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم ملک میں اتحاد و اتفاق، قومی یکجہتی اور مذہبی رواداری کو مستحکم بنانے کے لئے دل و جان سے کوشش کریں اور ایسی کسی بھی فرقہ پرست تنظیم کو ابھرنے کا موقع نہ دیں جس سے ہمارے ملک کی ایکتا اور سالمیت کو خطرہ پہنچے۔
٭٭٭