TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN –24 MAY
جب کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے کنیا کماری سے کشمیر تک اپنی’’بھارت جو ڑو یاترا‘‘ شروع کی تھی تو بی جے پی نےانہیں کئی طرح سے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔’’ بھارت تو پہلے سے ہی جڑا ہوا ہے، اس کی کیا ضرورت ہے‘‘ یا پھر ’’جو اپنے کنبے کو نہیں جوڑ پا رہا ہے، وہ بھارت کو جوڑنے چلا ہے‘‘ یا اس طرح کے اور بھی کئی طنزیہ جملے اچھالے جا رہے تھے۔مگر راہل گاندھی نے ان جملوں کی پروا کئے بنا اپنی ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ بہت ہی اعتماد کے ساتھ مکمل کی۔اور راہل گاندھی کے اسی اعتماد نے کانگریس کے کیمپ میں روح پھونک دی تھی۔اس بات کا اعتراف خود بی جے پی کے سنجیدہ لوگ بھی دبی زبان میں کرتے ہیں۔
ہماچل اور اب کرناٹک میں بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد کانگریس نے خود کو اہم اپوزیشن پارٹی کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس کا سب سے بڑا کریڈٹ راہل گاندھی کو دیا جا رہا ہے۔ اب این ڈی ٹی وی۔سی ایس ڈی ایس سروے سے بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ راہل گاندھی کی ’’بھارت جوڑو یاترا ‘‘بے اثر نہیں رہی، بلکہ اس نے حیرت انگیز کام کیا ہے۔ جی ہاں، 2024 میں، اگر کانگریس پارٹی راہل گاندھی کو بی جے پی کے سب سے بڑے اور کرشمائی چہرہ وزیر اعظم نریندر مودی کے سامنے ایک چیلنج کے طور پر پیش کرنے کی تیاری کر رہی ہے، تو کانگریس کی اس خود اعتمادی کے پیچھے ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ کی ہی کارفرمائی ہے۔19 ریاستوں کے 7200 لوگوں پر کیے گئے سروے میں جب لوگوں سے پوچھا گیا کہ 2024 میں نریندر مودی کو کون چیلنج کر سکتا ہے تو سب سے زیادہ حمایت راہل گاندھی کے حق میں تھی۔
اس سروے سے ایک اور بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگر’’ اپوزیشن اتحاد مہم ‘‘ کو آگے بڑھتا ہوا دیکھا جائے تو کانگریس کا رول یقیناََ بڑا ہونے والا ہے۔ ممکن ہے کہ وزیر اعظم کا امیدوار بھی کانگریس سے ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ اعلان یہ کہہ کر ملتوی کر دیا جائے کہ نتائج آنے کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔ ویسے اس وقت بی جے پی کے لیے کوئی بڑی ٹینشن نہیں ہے کیونکہ سروے کے مطابق پی ایم کے طور پر زیادہ تر لوگوں کی پسند اب بھی نریندر مودی ہی ہیں۔ تاہم یہ بھی سچ ہے کہ بھارت جوڑو یاترا کے بعد راہل گاندھی کے حق میں حمایت بڑھ رہی ہے۔ 43 فیصد لوگوں نے کہا ہے کہ مودی کو تیسری مدت دی جائے، جب کہ 27 فیصد لوگ چاہتے ہیں کہ راہل گاندھی وزیر اعظم ہوں۔ اگرچہ یہ فرق بہت بڑا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ 2024 کے انتخابات میں ابھی چند ماہ باقی ہیں۔ ایسے میں کانگریس والوں کے لیے یہ اچھی علامت ہو سکتی ہے کہ راہل کے حق میں حمایت بڑھ رہی ہے۔یعنی سروے کے مطابق راہل گاندھی کی اس یاتراکے بعد ان کی مقبولیت کے گراف میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔
این ڈی ٹی وی۔لوک نیتی۔سی ایس ڈی ایس سروے کے مطابق، خاص بات یہ ہے کہ 2019 اور 2023 کے درمیان پی ایم مودی کی مقبولیت 44 سے کم ہو کر 43 فیصد رہ گئی ہے۔ جبکہ راہل گاندھی کی مقبولیت 24 فیصد سے بڑھ کر 27 فیصد ہوگئی ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی کو ان کے انداز خطابت کی وجہ سے 25 فیصد لوگ پسند کرتے ہیں جبکہ 26 فیصد لوگوں نے ہمیشہ راہل کو پسند کیا ہے۔سروے میں شامل 27 فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ راہل گاندھی کو ہمیشہ پسند کرتے ہیں، جب کہ 15 فیصد نے کہا کہ وہ’’ بھارت جوڑو یاترا‘‘ کے بعد ان کے مداح بن گئے۔ یہ اعداد و شمار گرچہ کم نظر آتے ہیں، لیکن اس میں ایک ایک بڑی تبدیلی کی نشاندہی بھی مضمر ہے، جسے بھارت کا ہر ایک با شعور انسان سمجھتا ہے۔کانگریس اسے اپنے لیے اچھی خبر سمجھ سکتی ہے اور بی جے پی کے لئے یہ صورتحال ذہنی کشیدگی کا سبب ضرور ہے۔ تناؤ کا معاملہ ہے۔
یہ بات پوری دنیا جانتی ہے کہ چند ماہ قبل کانگریس نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ’’ بھارت جوڑو یاترا‘‘ نکالی تھی۔ راہل گاندھی ترنگا پرچم کے ساتھ سفید ٹی شرٹ میں مختلف شہر وں اور گاؤں سے گزرے تھے۔ راستے میں مختلف شعبۂ حیات سے وابستہ نامور شخصیات بھی ان کے ساتھ چلتی نظر آئیں۔ سروے میںوزیر اعظم کے انتخاب کے سوال میں وزیر اعلیٰ دہلی اروند کیجریوال 11 فیصد حمایت کے ساتھ تیسرے نمبر پر نظر آ رہے ہیں۔ اس سے صاف ہے کہ اپوزیشن میں صرف راہل ہی ہیں، جو فی الحال مودی کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔قابل ذکر ہے کہ 136 دنوں میں کانگریس کی’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ 12 ریاستوں اور 2 مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے 75 اضلاع سے ہوکر گزری تھی۔ کانگریس نے کہا تھا کہ اس دورے کا مقصد بھارت کو متحد کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کو مضبوط کرنا ہے۔ یہ یاترا 7 ستمبر 2022 کو کنیا کماری سے شروع ہوئی تھی اور تقریباً 4000+ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے 136 دنوں کے بعد کشمیر میں مکمل ہوئی تھی۔ کرناٹک میں شاندار جیت کے بعد کانگریس اب 2024 لوک سبھا انتخابات میں خود اعتمادی کے دم خم کے ساتھ میدان میں اترنے کی تیاری میں جٹ گئی ہے۔کانگریس ابھی پورے ملک کو کرناٹک کی نظر سے دیکھ رہی ہے اور اس یقین کے ساتھ دیکھ رہی ہے کہ بازی پلٹنے والی ہے ۔بعض سیاسی مبصرین کا بھی یہی ماننا ہے کی ’’سخت گیر ہندتو‘‘ کا چولا پہن کر ملک کو بہت دنوں تک گمراہ نہیں کیا جا سکتاہے۔
**********************