!نیم حکیم خطرہ جان،نیم ملا خطرہ ایمان

TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN – MAY

ریاض فردوسی

ہم مفت کے مفتی ہیں
ہر فتویٰ بتا دیں گے
ہر بات سمجھا دیں گے
شریعت کے سوا !
آدمی کا کسی بھی مضمون کے متعلق کم علم ہونا بہت نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔مکمل علم کے بغیر کسی کام میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیئے۔ناتجربہ کاری سے کام بگڑ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے،جو ڈاکٹر،حکیم اور طبیب حقیقت میں نہ ہو،مگر ادھر ادھر کر کے سند حاصل کرکے حکیم،طبیب اور ڈاکٹر بن جاتے ہیں اور سادہ لوح عوام کی زندگیوں سے کھیلنے لگتے ہیں،تو سوائے مریضوں کے نقصانات کے کچھ بھی نہیں ہوتا۔جب کوئی کم علم حکیم اپنے علم کا اظہار اپنے انداز میں کرتا ہے تو یہی کہا جاتا ہے،نیم حکیم خطرہ جان،ایسے نیم حکیم کئیوں کی جان لے لیتے ہیں،قبرستان اور شمشان گھاٹ تک پہنچا دیتے ہیں۔یہ طبقہ فن اور اس کی ضروریات، قواعد و ضوابط کا پورا علم نہیں رکھتا،کسی استاد کے سامنے بیٹھ کرنہیں سیکھتا اور اس کے خود ساختہ ماہر بن جاتا ہے۔ ناسمجھ اور کم جانکار عوام ان کے ظاہر پر بھروسہ کرکے صحت کے بدلے موت خرید لیتی ہے،دنیا کے بدلے آخرت کو تباہ وبرباد کر دیتے ہیں۔کوئ شخص اپنے چند سالوں کی محدود مطالعہ کے تکبر میں،چند اردو کتابوں کے مطالعہ کو مکمل علم سمجھنے کی ناسمجھی میں کتاب اللہ اور احادیث مبارکہ کی نئ نئ تاویلیں پیش کرتاہے،بنا غور وخوض کئے اپنی جہالت سے سب کو روشناس کراتا ہے،ایسے ہی شخص کو نیم ملا خطرہ ایمان کہاجاتاہے۔بھارت کی سرزمین پر نیم حکیم اور نیم ملا کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں ہر بندہ خود ساختہ دین کا عالم اور مفتی بن گیا ہے،اگرچہ عربی کی ایک عبارت جو بنا اعراب کے ہوتی ہے،وہ یہ لوگ نہیں پڑھ سکتے۔چند کتابوں کو پڑھ لیا،چند مجالس میں بیٹھ گئے،قرآنی آیات کو بنا شان نزول اور شان ورود جانے بغیر اپنی کم فہمی سے فوراً اچھے اور برے کا فیصلہ کرکے خود ہی منصف اور حاکم بن جاتے ہیں۔ان اشخاص کا دینی علوم کی تعلیم و تربیت حاصل کرنے سے تعلق رہا ہو یا نہ رہا ہو مگر وہ علامہ ہو ہی جاتے ہیں۔ان لوگوں کو نیم ملا پکارا جاتا ہے۔ان نیم ملاؤں کی تعداد کے ساتھ ساتھ اثر و رسوخ بھی بڑھ گیا ہے۔یہ نیم ملا چند برس کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد خود کو مذہب کے سرپرست سمجھنے لگ جاتے ہیں۔مسلم عوام کے درمیان میں سب سے زیادہ فتنہ و فساد کا ذمہ دار یہی طبقہ ہے۔یہ نیم ملا کسی قسم کا بھی فتوی ذاتی پسند یا نا پسند کی بنیاد پر دے کر کسی کو بھی کافر قرار دے دیتے ہیں۔ان نیم ملاؤں کو طاقت دینے میں عوام الناس کی کم علمی اور ناسمجھی کا پورا پورا ہاتھ ہے۔یہ نیم ملا جب دنیا کی دولت خوب کما لیتے ہیں،مکان تیار کر لیتے ہیں،ان کے بچے الگ الگ شعبوں میں بہترین منصب پر فائز ہو جاتے ہیں تو انہیں اصلی عالم صاحب میں کمی نظر آتی ہے۔یہ نیم ملا اسلامی شریعہ کاجھوٹا‌ دکھاوا کرکے اپنے بچوں کو دینی تعلیمات سے دور ہی رکھتے ہیں،اس لئے کہ مولانا صاحب کی تنخواہیں اتنی اچھی نہیں ہوتی کہ وہ اپنے بچوں کو اچھے اسکول وکالج میں پڑھا سکے(الا ماشاء اللہ) نیم ملاؤں کی زیادہ تعداد ان لوگوں کی زیادہ ہے،جو معاشرے میں کسی مرتبے کے لائق نہ تھے تو کسی نہ کسی بہانے علماء اکرام پر سوال اٹھاؤ اور سستی شہرت حاصل کر لو،صدیوں سے یہی کام کفر کے علمبردار کرتے ہیں،اور اب طاغوتی طاقتوں کے پرستاروں کی اسلامی تعلیمات اور علماء اکرام سے دشمنی اور ان پر نکتہ چینی کرنے کی ذمے داری نیم ملاؤں کے قابل ہاتھ میں ہے اور وہ اپنا فرض بخوبی ادا کر رہے ہیں۔یہ نیم ملا کسی اسلامی تحریک سے جڑ کر،مولوی صاحب بن جاتے ہیں،اسلامی تحریک کا پلیٹ فارم‌ استعمال کرکے اور ساتھ ہی ساتھ شریعت کی دو چار کتابیں پڑھ کر کسی مسجد میں،یا انجمن میں جمعہ اور عیدین کے خطیب اور امام بن جاتے ہیں۔ پہلے پہل وہ مولوی صاحب رہتے ہیں پھر آہستہ آہستہ مفسر قرآن و محدث قرار پا جاتے ہیں اور ایسا وقت بھی آتا ہے کہ عالم با عمل اور مجاہد اسلام کا خطاب سے سرفراز کئے جاتے ہیں۔
اب انھیں کھلی اجازت مل جاتی ہے کہ ہے جو مرضی فتویٰ جاری کریں،جس کو چاہے برا کہے،جس کو چاہے بھلا کہے،ان نیم ملاؤں کے لئے سب معاف ہے۔
نیم ملا کی شہرت کی سب سے بڑی وجہ ہے عوام و خواص میں سہی اور واضح شرعی علوم کا فقدان۔لوگوں کے اندر دینی بیداری نہیں ہوگی تو نیم ملا زور پکڑیں گے۔نیم ملا کو اس وقت تک غلط ثابت نہیں کیا جا سکتا جب تک لوگوں میں شریعت کا سہی علم،اسلامی شعائر کے لئے سچی بیداری نہیں ہوگی تو یہ نیم ملا مسلمانوں کا وجود ہی ختم کر دیں گے۔ان نیم ملاؤں کی معلومات شریعت اسلامیہ کے متعلق اتنی کم اور سطحی ہے کہ وہ خود پہلے ایک عام مسلمان بن جائیں تو ان کے لئے اچھا ہے مگر یہ نیم ملا شیطانی مکر و جال میں پھنسے ہیں،جاہ منصب کے طلب گار ہیں،خود کو فریب دے کر اپنی چرب زبانی کے ساتھ،پہلے سے کچھ رشد و ہدایت پر بیٹھے عوام کو دین کے مسائل،شریعت کے بارے میں ایسے ایسے وعظ فرماتے ہیں کہ لگتا ہے موجودہ دور کہ حسن بصری،بایزید بسطامی،جنید بغدادی اور عبد القادر جیلانی یہی ہیں۔(رحمتہ اللہ علیھم اجمعین)
آج دین اس قدر مظلوم ہوچکا ہے کہ ہم ہر ایرے غیرے سے دینی مسائل دریافت کر لیتے ہیں۔تعجب ہوتا ہے کہ ہم سب کو اپنا طبی مسئلہ بتاکر حل تلاش نہیں کرتے،عام مزدوروں سے مکانات نہیں بنواتے،دودھ کی دکان سے راشن اور راشن کی دکان سے سبزی نہیں لیتے،کسائ سے آپریشن نہیں کراتے،اس لئے کہ جو کام جس کا ہوتا ہے اسی کے پاس اس کام کے لئے جایا جاتا ہے،نہیں تو اس فن کا ماہر ڈھونڈا جاتا،گھر بیٹھے چند کتابیں پڑھ کر،چند مضامین لکھ کر خود کو مولانا صاحب کہلانے والے کو بہروپیا،دھوکے باز کہتے ہیں مگر سمجھنے والی بات یہ ہے کہ قرآنی آیات،تفسیر قرآن،احادیث نبی ﷺ،دین کی باتیں،فقہی مسائل،اختلافات‌ وغیرہ کی بات سب سے پوچھ لیتے ہیں؟
تعجب کی بات ہے کہ ہم دینی اور فقہی مسائل باورچی،حجام،درزی،موچی،انجینئر، ڈاکٹر، سیاستدان حتیٰ کہ فلموں ڈراموں سے جڑے اور گانے بجانے والوں سے بھی سیکھنے اور سننے کو تیار ہیں،لیکن کسی تربیت یافتہ عالم صاحب کے پاس بیٹھنے کی فرصت نہیں ہے۔ان نیم ملاؤں کی من چاہی شریعت،مفاد پرستی اور ذاتی عناد کو دین سمجھ کر انہیں ہم “ماشاء اللہ، سبحان اللہ”سے نوازتے چلے جا رہے ہیں۔
ڈاکٹر کا کام باورچی سے، باروچی کا کام انجینئر سے،انجینئر کا کام گورکن سے،گورکن کاکام ماہر کمپیوٹر سے،ماہر کمپیوٹر کاکام حجام سے نہیں لیا جاتا ہے۔جس نے جو کام سیکھا ہے،وہ اسے بخوبی انجام دے سکتا ہے، یہ دوسرے کے بس میں نہیں ہے۔جو کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ صرف وہی کر سکتا ہے۔جس کا کام اس کے مطابق ہو۔
مشہور کہاوت ہے!
جس کا کام اسی کو ساجھے
اور کرے تو ٹھینگا باجے
9968012976