چین میں مسجد کے انہدام پر جھڑپوں کے بعد پولیس تعینات، گرفتاریاں

TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN –30  MAY    

بیجنگ،30مئی:چین نے ایک مسجد کے جزوی انہدام کے منصوبے پر جھڑپوں کے بعد مسلمانوں کی اکثریت والے جنوب مغربی قصبے میں سینکڑوں پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا اور گرفتاریاں کیں۔ واقعے کے عینی شاہدین نے اے ایف پی کو بتایا ہے۔ایک رہائشی نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر پیر کو بتایا کہ صوبہ یوننان کے شہر ناگو میں حال ہی میں ناجیائینگ مسجد کے چار میناروں اور گنبد کو گرانے کے منصوبے کو آگے بڑھایا ہے۔یہ علاقہ ‘ہوئی’ لوگوں کا گھر ہے، جو بنیادی طور پر ایک مسلمان نسلی گروہ ہے جو حالیہ دنوں وسیع کریک ڈاؤن کی وجہ سے دباؤ میں ہے۔سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز اور عینی شاہدین کے مطابق ، ہفتے کے روز، درجنوں سرکاری اہلکاروں نے مسجد کے باہر ایک ہجوم کو پیچھے ہٹایا جو ان پر اشیاء￿ پھینک رہے تھے۔ایک مقامی خاتون نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ”وہ زبردستی مسماری کرنا چاہتے ہیں، اس لیے یہاں کے لوگ انہیں روکنے کے لیے گئے”انہوں نے کہا کہ مسجد ہم جیسے مسلمانوں کا گھر ہے۔ “اگر وہ اسے گرانے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم یقینی طور پر انہیں نہیں کرنے دیں گے۔عمارتیں صرف عمارتیں ہیں — وہ لوگوں یا معاشرے کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتیں۔ انہیں تباہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟”دو گواہوں نے بتایا کہ پولیس نے اس واقعے کے حوالے سے لا تعداد گرفتاریاں کی ہیں اور پیر تک کئی سو پولیس اہلکار قصبے میں موجود تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ جھڑپوں کے بعد سے مسجد کے آس پاس کے علاقوں میں لوگوں کو وقفے وقفے سے انٹرنیٹ کی بندش اور رابطے میں مشکلات کا سامنا تھا۔ناگو کی انتظامی حکومت کی طرف سے اتوار کو جاری کردہ ایک نوٹس میں کہا گیا کہ “اس معاملے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں “نوٹس میں ، واقعے میں ملوث افراد کو “تمام غیر قانونی اور مجرمانہ کارروائیوں کو فوری طور پر بند کرنے” کا حکم دیا گیا ہے، اور بصورت دیگر “سخت سزاؤں” کا اعلان کیا گیا۔نوٹس میں مزید کہا گیا کہ 6 جون سے پہلے رضاکارانہ طور پر ہتھیار ڈالنے والوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کیا جائے گا۔منگل کو اے ایف پی کے ذریعے رابطہ کیا گیا تو مقامی حکومت کے پبلسٹی ڈیپارٹمنٹ کے ایک اہلکار نے انٹرنیٹ کی بندش کی تردید کی، لیکن مزید تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔چین میں ایک دہائی قبل صدر شی جن پنگ کے اقتدار میں آنے کے بعد سے مذہب پابندیوں میں اضافہ ہوا ہے۔مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے بارے میں بیجنگ کا دعویٰ ہے کہ وہ دہشت گردی اور انتہا پسندانہ سوچ سے نمٹنے کے لیے یہ کام کر رہا ہے۔ایک اندازے کے مطابق 2017 سے مغربی سنکیانگ کے علاقے میں 10 لاکھ اویغور، ہوئی اور دیگر مسلم اقلیتوں کو حکومتی مہم کے تحت حراست میں لیا گیا ہے جسے امریکا اور انسانی حقوق کی تنظیمیں نے نسل کشی قرار دیا ہے۔برطانیہ کی یونیورسٹی آف مانچسٹر میں ہوئی کے ماہر ڈیوڈ اسٹروپ کا کہنا ہے کہ کہ چینی جمالیات کے سرکاری تصورات سے مبینہ مطابقت کے نام پر مساجد کا انہدام یا “زبردستی تزئین و آرائش” کی جاتی ہے۔