ایسے لوگوں کی قربانی نہیں ہوتی ہے !(ایک دلچسپ مکالمہ)

TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN –22 JUNE

ابونصر فاروق

جامعہ تعلیم القرآن شہر کی ایک معروف و مشہور دینی درس گاہ تھی، جہاں سے ایک سے ایک بڑھ کرعلم شریعت کے حاملین تعلیم پاکر نکلے تھے اور اُنہوں نے اپنی زندگی عام مسلمانوں کی دینی تعلیم و تربیت کے لئے وقف کر دی تھی۔اُن لوگوں نے صرف درس گاہ کا نصاب ہی نہیں پڑھا تھا بلکہ درس گاہ سے فراغت کے بعد کالجوں میں جو جدید علوم کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں اُن کا بھی مطالعہ کر کے اُن کی حقیقت کو جانا تھا۔ان میں کے اکثر لوگوں نے کسی نہ کسی مسجد میں امامت کی ذمہ داری قبول کر لی اور قدرے قلیل آمدنی پرنہایت کفایت شعاری کے ساتھ سنت نبوی اور صحابہ کی پیروی کرتے ہوئے زندگی بسر کرنے لگے۔ہر روز نماز عصر اور نماز عشا کے بعد نمازیوں کو نماز کے احکام اور مسائل نیز ایمان و عبادات کے متعلق تعلیم دیتے اور اُن کی تربیت کرتے۔
دین اسلام کے احکام زندگی کے ہر شعبے میں کیسے لاگو ہوتے ہیں اور کیسے ان پر عمل کرتے ہوئے زندگی بسر کرنی چاہئے جمعہ کے خطبوں میں نہایت دل سوزی اور حکیمانہ انداز میں سناتے اور سمجھاتے۔اُن کی مسجد کے نمازی عام طور پر اخلاق و کردار کے اعتبار سے بہت معیاری مسلمان بنتے جا رہے تھے۔نمازیوں کے گھروں میں جاتے اور اُن کی ہدایت و نصیحت کا درد دیتے۔اُن کے مسائل حل کرتے، اُن کی مشکلیں آسان کرتے۔پورا علاقہ ان کے تقویٰ اور عالمانہ شان کی قدر کرتا اوران کو سر آنکھوں پر بٹھا تا تھا۔پیر نہیں ہوتے ہوئے بھی ان کی حیثیت پیر صاحب جیسی ہو گئی تھی جن سے ہر کوئی دعا کی درخواست کرتا۔اسی جامعہ میں ایک دن ایک یادگار واقعہ ہوا جس کی تفصیل قارئین کی معلومات اور اصلاح احوال کے لئے پیش کی جارہی ہے:
آج درس گاہ میں کلاس شروع ہونے سے پہلے حامد اورخالد میں گرما گرم بحث ہو گئی۔ دونوں کے چہروں پر اس بحث کا اثر موجود تھا۔مولانا مبشر جب حدیث کا کلاس لینے آئے تو اُنہوں نے لڑکوں کے چہروں کی طرف دیکھا اور حامد اور خالد کے چہروں پر تبدیلی محسوس کرتے ہوئے پوچھا ،کیا بات ہے تم لوگوں کے چہروں پر کچھ غصے کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ حامد نے کھڑے ہو کر کہا مولانا! خالد کہہ رہا تھا کہ میرے اباجان بقرعید میں قربانی کے لئے جو بکرا لائے ہیں اُن کی قربانی نہیں ہوگی۔میں کہہ رہا تھا کہ وہ ہر سال بقرعید میں بکرے کی قربانی کرتے ہیں، اس سال بھی قربانی کر رہے ہیں، قربانی نہیں کیسے ہوگی  ؟  مولانا نے خالد سے پوچھا کیوں خالد تم ایسا کہہ رہے تھے  ؟  خالد نے کہا جی ہاں مولانا میں اس سے یہ کہہ رہا تھا کہ قربانی کرنے کے لئے مسلمان ہونا شر ط ہے۔ غیر مسلم کو قربانی کرنے کا حکم نہیں ہے۔حامد کے اباجان پانچ وقت کی نماز نہیں پڑھتے ہیں۔ وہ مسلمان ہیں ہی نہیں ان کی قربانی کیسے ہوگی  ؟  خالد کی بات سن کر مولانا سو چ میں پڑ گئے۔
اُنہوں نے خالد سے کہا ، تمہارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جونمازنہیں پڑھتا ہے وہ مسلمان نہیں ہے ۔اس کے لئے تمہارے پاس کیا دلیل ہے  ؟ کس بنیاد پر کہہ سکتے ہو کہ حامد کے ابا جان کے بکرے کی قربانی نہیں ہوگی  ؟  خالد نے کہا مولانا حدیث میں لکھا ہوا ہے کہــــ’’نماز دین کا ستون ہے ، جس نے نماز قائم کی اُس نے دین کو قائم کیا اور جس نے نماز ڈھا دی اُس نے دین کو ڈھا دیا۔‘‘جو آدمی پنج گانہ نماز کا پابند نہیں ہے اُس کا دین نہیں ہے۔ جس کا دین نہیں ہے اُس کی قربانی کیسے ہوگی  ؟  پھر وہ حدیث بھی تو ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’نمازکا (جان بوجھ کر) ترک کرنا بندگی اور کفر کے درمیان کی چیز ہے۔‘‘جو آدمی جان بوجھ کر نماز نہیں پڑھتا ہے وہ اسلام کے دائرے سے نکل کر کفر کے دائرے میں چلا جاتا ہے، ایسے آدمی کی قربانی کیسے ہوگی  ؟
مولانا نے پوچھا ،صرف یہی دو حدیثیں تمہارے پاس تمہارے دعوے کی دلیل ہیں یا کچھ اور بھی ہے  ؟
خالد نے کہا، قرآن میں لکھا ہوا ہے کہ ’’ تمہارے جانور کا گوشت اور خون اللہ تعالیٰ کے پاس نہیں پہنچتا ہے ، بلکہ وہ تقویٰ پہنچتا ہے جو تمہارے اندر موجود ہے۔‘‘جو آدمی نماز کا پابند نہیں ہے اُس کے اندر تقویٰ ہے ہی نہیں۔وہ جب قربانی کرے گا تو اللہ تعالیٰ کے پاس اُس کا تقویٰ پہنچے گا ہی نہیں،   تو پھر اُس کی قربانی کیسے ہوگی  ؟
مولانا نے پوچھا اور بھی کوئی دلیل  ؟  خالد نے کہا،قربانی کرتے ہوئے جو دعا پڑھی جاتی ہے وہ ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہے جواُنہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے دین کو چھوڑ کر خالص اللہ کی بندگی کرنے کاعہد کرتے ہوئے پڑھی تھی، جس کا مطلب یہ ہے’’بیشک میں اپنا رخ اُس اللہ کی طرف کرتا ہوں جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، میں سچا اور پکا مسلم ہوں اور میں شرک کرنے والا نہیں ہوں۔میری نمازاورمیری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لئے ہے۔میں اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا، اور میں مسلمانوں میں سے ہوں‘‘جو آدمی قربانی کرتے ہوئے یہ دعا پڑھتا ہے وہ دراصل جھوٹ بولتا ہے کیونکہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے اُس کا عمل ان باتوں کے مطابق ہے ہی نہیں ۔حدیث میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسلمان کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا ہے۔
مولانا نے حامد سے کہا،کہو میاں حامد  !  خالد نے اپنے دعوے کی دلیل میں اتنی ساری باتیں کہی ہیں۔تم جو بات کہہ رہے ہو ، کیا تمہارے پاس بھی تمہارے دعوے کی کوئی دلیل ہے  ؟
حامد نے کہا،مولاناخالد کی باتیں تو سب درست ہیں ، لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ جتنے بے نمازی مسلمان قربانی کرتے ہیں اُن کی قربانی نہیں ہوتی ہے  ؟  اگر ایسی بات ہے تو جمعہ کے خطبے میں اور دوسری دینی تقریروں میں مولانا لوگ مسلم ملت کے لوگوں کو یہ باتیں کیوں نہیں بتاتے ہیں ؟
مولانا نے کہا، دیکھو اصل معاملہ یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں اجتماعیت نہیں ہے۔مسلمانوں کے اعمال کا احتساب کرنے والا کوئی ہے ہی نہیں۔غیر مسلم حکومت کے ماتحت مسلمان زندگی بسر کر ہے ہیں۔اگر کوئی مسلمان شریعت کے خلاف عمل کر رہا ہوتو کوئی دینی فرد یا دینی ادارہ اُس کی پکڑ نہیں کر سکتا ہے۔فوراً حکومت اور قانون اُس کی بے دینی کی حمایت کے لئے سامنے آ جائیں گے کہ ،کسی کے ساتھ مذہب پر عمل کرنے کے لئے زبردستی نہیں کی جاسکتی ہے۔ بے دین ، خدا فراموش اور آخرت بیزار مسلمان اس سہولت کا فائدہ اٹھا کر فاسق و فاجر جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ماحول ایسا بن گیا ہے کہ جو شخص خود کو مسلمان کہتا ہے اُس کو مسلمان سمجھا جاتا ہے۔کوئی اُس کو یہ باتیں نہیں کہہ سکتا جو خالد کہہ رہا ہے۔اور جو کچھ خالد کہہ رہا ہے وہی حقیقت ہے ۔ اللہ اور اُس کے پیارے نبی ﷺ کے نزدیک ایسے لوگ مسلمان نہیں ہیں اور ایسے لوگوں کی قربانی کیا کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی ہے۔
اُن کی عید بقرعید اور جمعہ کی نمازیں، اُن کی قربانیاں، اُن کے حج، اُن کے صدقے اور خیرات کچھ بھی اللہ تعالیٰ کے یہاں قبول نہیں ہوتے۔ جہاں تک عالموں اور خطیب و مقرر کا سوا ل ہے تو اس معاملے میں وہ بھی قصور وار ہیں کہ اُن کو ملت کے افراد کو یہ باتیں صاف صاف بتانی چاہئیں، تاکہ لوگ خبردار ہوں۔ عمل کرنا نہ کرنا ہر فرد کی اپنی ذمہ داری ہے، لیکن دین وشریعت کے صحیح احکام بتانا عالم دین کی ذمہ داری ہے۔جو لوگ علم رکھنے کے باوجود عوام کو دین وشریعت کا صحیح علم نہیں دیتے وہ گنہگار ہیں اور آخرت میں اُن کو اس کی سخت سزاملے گی۔ قرآن اور احادیث میں اس کی وضاحت موجودہے۔
مولانا کی بات ختم ہوتے ہی داؤد کھڑا ہوا اور اُس نے مولانا سے پوچھا۔ میرے ابا جان ہر سال بکرے کی قربانی کرتے تھے، لیکن اس سال اُن کی مالی حالت اچھی نہیں ہے اس لئے میرے گھر میں بکرے کی قربانی نہیں ہو رہی ہے۔امی نے اُن سے کہا بڑے جانور میں حصہ لے لیجئے، یہ قربانی کم خرچ  میں ہو جائے گی۔لیکن ابا جان کہتے ہیں کہ حصے والی قربانی بھی کوئی قربانی ہوتی ہے  ؟  میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ اباجان صحیح کہہ رہے ہیں یا غلط ؟
مولانا نے کہا،دیکھو بات جب چھڑ گئی ہے تو مجھے بھی بتانا ہی ہوگا ورنہ میں بھی گنہ گار ہو جاؤں گا۔دراصل تمہارے ابا جان اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے حکم کی تعمیل میں قربانی نہیں کرتے ،بلکہ سماج میں اپنی شان قائم رکھنے کے لئے قربانی کرتے ہیں۔بکرے کی قربانی کی جگہ حصے والی قربانی ہوگی توگھر میں قربانی کا ماحول نہیں پیدا ہوگا اور قربانی کا دکھاوا نہیں ہو پائے گا ، اس لئے تمہارے ابا جان اس سال قربانی نہیں کرنا چاہتے ہیں۔
حامد جھٹ سے بولا داؤد کے ابا کی قربانی بھی نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ تو شرک کرتے ہیں۔قرآن میں لکھا ہوا ہے کہ جو آدمی دکھاوے کے لئے کوئی نیک عمل کرتا ہے وہ شرک کرتا ہے۔ شرک ایسا گناہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ کسی حال میں معاف نہیں کرے گا۔ یہ بھی قرآن میں لکھا ہواہے۔
مولانا نے کہا دیکھو بات تو بہت کڑوی ہے ، لیکن حامد بالکل صحیح بات کہہ رہا ہے۔
مولانا کی بات ختم ہوتے ہی راشد بھی کھڑا ہوگیا اور بولا میرے گھر میں بھی یہی معاملہ ہے۔میرے بھائی جان ہر سال پچیس ہزار کا بکرا خرید کر قربانی کرتے ہیں۔ اس بار اُن کی حالت بھی اچھی نہیں ہے۔آپا جان کہہ رہی تھیں کہ کم وزن کا چھوٹا بکرا خرید کر لے آؤ۔ایک سال کا جانور ہونے کی شرط ہے۔ ایک سال کا جانور تو چھوٹا ہی ہوگا۔لیکن بھائی جان کہہ رہے ہیں کہ نہیں، ہمیشہ بڑا بکرا قربانی کرتے رہے ہیں ، اس بار چھوٹا بکراقربانی کریں گے تو سب سمجھیں گے کہ گھر میں غربت آ گئی ہے۔عزت بچانے کے لئے قربانی نہیں کرنا ہی اچھا ہے۔ بتائیے مولانا !  آپا کی بات درست ہے یا بھائی جان کی بات صحیح ہے  ؟
مولانا نے کہا بیٹا!  یہاں بھی وہی معاملہ ہے۔تمہاری آپا کی بات بالکل صحیح ہے۔ اللہ تعالیٰ قربانی کرنے والے کے جانور کو نہیں دیکھتا بلکہ اُس کی نیت، خلوص اور تقویٰ کو دیکھتا ہے۔جیسا جانور میسر ہو اُس کی قربانی کرنا واجب ہے۔تمہارے بھائی جان بھی قربانی درا صل شریعت کے حکم کی تعمیل کے لئے نہیں کرتے ہیں،بلکہ اپنی شان جتانے کے لئے کرتے ہیں۔فوراً حامد بول اٹھا راشد میاں تمہارے بھائی جان کی قربانی بھی نہیں ہوتی ہے۔
زاہد نے پوچھا مولانا یہ بتائیے کہ جو لوگ قربانی کے لئے بہت قیمتی بکرا خریدتے ہیں اگر وہ اتنی ہی قیمت میں کم قیمت کا ایک کی جگہ کئی بکرا خرید لیں اور ایک دن کی جگہ تین دن قربانی کریں تو کیا یہ بہترنہیں ہوگا۔مولانا نے جواب دیا، تم نے بالکل درست بات کہی۔پچیس ہزار کا ایک بکرا خریدنے کی جگہ آٹھ نو ہزار کا تین بکرا خرید کر تین دن قربانی کرنے کا ثواب زیادہ ہوگا۔لیکن جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ بھی دراصل نام و نمود کے لئے دکھاوے کی قربانی کرتے ہیں۔ایسا کرنے میں اُن لوگوں کے یہاں بھی بکرے کا گوشت جائے گا جنہیں سال بھر بکرے کا گوشت میسر نہیں ہوتاہے۔
حامد نے پھر لقمہ دیا، ایسے تما م لوگوں کی قربانی نہیں ہوتی ہے۔
ساجدنے کہا، مولانا اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پوری ملت میں شاید ہی ایسے لوگ ملیں گے جن کی قربانی شریعت کے مطا بق ہوتی ہے  ؟ عام طور پر جو قربانی ہوتی ہے وہ صرف رسم ادا کرنے یا اپنا شوق پورا کرنے یا شہرت اور ناموری کے لئے ہوتی ہے ؟  اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے  ؟
مولانا نے کہا دیکھو بات تو تم بالکل درست کہہ رہے ہو۔ میں اس سلسلے میں کوئی فتویٰ تو نہیں دے سکتا لیکن سچی بات یہی ہے کہ اس وقت مسلمان چونکہ شریعت سے آزاد اور غافل ہو کر بے دینی اور بے شعوری کی زندگی بسر کر ہے ہیں اس لئے اُن کی زندگی کا کوئی عمل دین و شر یعت کے مطابق  نہیں ہو رہا ہے۔اور اسی بے دینی کا انجام ہے کہ مسلمان دن بہ دن نئے نئے مسائل اور مشکلات کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔یہ اپنے مسائل کو جتنا حل کرنا چاہتے ہیں مسائل اتنے ہی الجھتے چلے جا رہے ہیں۔گنہگار بندہ جب تک اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی نہیں مانگے گا اللہ کی رحمت اُس پر نہیں ہوگی اور اُس گنہ گار بندے کی کوئی دعا بھی قبول نہیں ہوگی۔ لوگ دعا کی تلقین تو کرتے ہیں لیکن گناہوں سے بچنے کی تاکیدنہیں کرتے ہیں۔
کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ مسلمان بننا نہیں چاہتے اُن کو قربانی نہیں کرنی چاہئے  ؟  شاہد نے پوچھا ۔
مولانا بولے ،نہیں اس پوری گفتگو کا یہ مطلب نہیں ہے کہ لوگ قربانی نہ کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی قربانی کی نیت اور جذبے کو سدھاریں تاکہ اللہ تعالیٰ اُن کی قربانی کو قبول کرے اور اُن کو دنیا اور آخرت میں اس کا اچھا بدلہ ملے۔مولانا کی بات ختم ہوئی ہی تھی کہ کلاس ختم ہونے کی گھنٹی بج گئی۔ مولانا بولے اچھا بچو آج کا کلا س دراصل عید اضحیٰ اورقربانی کے موضوع پر مذاکرے کا کلاس ہو گیا۔صارمؔ عظیم آبادی کہتے ہیں:
قربانیوں کے بعد ہی آتی بہار ہے
قوموں کی زندگی کا یہی کار و بار ہے
بے جان بے وقار ہے انساں کی زندگی
قربانیوں کے دم سے ہی نقش و نگار ہے
قربانیوں سے اپنے سلف نامور بنے
محرومیوں کے ساتھ خلف بے وقار ہے
ضضضضض
رابطہ:8298104514