TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN –27JUNE
اب اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس سال بہارکے لوگوں کو خشک سالی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سے سب سے زیادہ کسان متاثرہونگے ۔ ماہ جون دو دنوں کے بعد ختم ہونے والا ہے، لیکن بہار کے 37 اضلاع ابھی تک خشک سالی کی زد میں ہیں۔ جھارکھنڈ میںبھی کم و بیش یہی صورتحال ہے۔ بیشتر اضلاع میں تالاب سوکھ چکے ہیں۔ ٹیوب ویل بھی سوکھ چکے ہیں۔ بہار کے کئی علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح بہت نیچے چلی گئی ہے۔حالات کو کنٹرول کرنے کے لئے متعلقہ ضلع انتظامیہ نے ٹیوب ویل سے کھیتوں کی آب پاشی پر پابندی لگا دی ہے۔بس یہ صرف کہنے کی بات ہے کہ مانسون نے دستک دے دی ہے، لیکن بہار اورجھارکھنڈ کی مٹی پانی کے لئے ترس رہی ہے۔
آن رکارڈ جانکاری کے مطابق بہار میں معمول سے 80 سے 90 فیصد کم بارش ہوئی ہے۔ جبکہ جھارکھنڈ میں بھی 1 سے 26 جون تک معمول کے 64 فیصد سے کم بارش ہوئی ہے۔ بہار اور جھارکھنڈ دونوں متاثرہ ریاستوں کی حکومتیں جلد ہی خشک سالی کا جائزہ شروع کرنے والی ہیں تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ بروقت بارش نہیں ہونے کی وجہ سے دونوں ریاستوں کو کتنا کا نقصان ہوا ہے۔یہ سچ ہے کہ مانسون کی ناکامی کسانوں کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے۔ اس سے خریف کی کاشت پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ اگر کہیں کہیں بارش ہو بھی جائے تو فائدے سے زیادہ جان و مال کا نقصان ہو جاتا ہے۔ بہار اورجھارکھنڈ میں ہر سال گرج چمک کے باعث سینکڑوں اموات ہوتی ہیں۔ بہار میں اس سال ٹھنکاکی وجہ سے اب تک 100 سے زیادہ لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ جھارکھنڈٹھنکاسے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں سے ایک ہے۔ پچھلے سال جھارکھنڈ کے بوکارو میں ایک اسکول پر بجلی گرنے سے 50-55 بچے جھلس گئے تھے۔ اس سے پہلے بھی جھارکھنڈ میں ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ جھارکھنڈ میں ہر سال سردی کی وجہ سے اوسطاً 300 اموات ہوتی ہیں۔
جھارکھنڈ میں اسکول پر بجلی گرنے کا پہلا واقعہ 2009 میں پیش آیا تھا۔ تب ریاستی حکومت نے تمام اسکولوں میں لائیٹنگ کنڈکٹر لگائے تھے۔ اس کے بعد کسی نے خیال نہیں رکھا کہ یہ لائیٹنگ کنڈکٹر خراب ہو گئے یا غائب کردئے گئے۔ ریاست کے 18 اضلاع کے 11544 اسکولوں میں بجلی گرنے سےبچانے والے لائیٹنگ کنڈکٹر غائب ہیں۔ یہ یا تو چوری ہو گئے تھے یا خراب ہو گئے ۔ جن سکولوں سے لائیٹنگ کنڈکٹرچوری ہوا وہاں کے کچھ اساتذہ نے ایف آئی آر درج کروائی لیکن زیادہ تر لاپرواہ رہے۔ معلومات کے مطابق رانچی سے 11558، لاتیہار سے 100، ہزاری باغ سے 1324، رام گڑھ سے 560، پلامو سے 1700 اور گملا کے اسکولوں سے 342 بجلی کے کنڈکٹر چوری ہوئے ہیں۔ جبکہ سمڈیگا 135، گڑھوا 107، لوہردگا 162، گوڈا 450، جام تارہ 850، پاکور 400، جمشید پور 910، دیوگھر 508، دھنباد 368، بوکارو 680، صاحب گنج 590 اور چترا 120 لائٹنگ کنڈکٹر ش ندارد ہیں۔
تقریباً ڈیڑھ دہائی قبل 2009 میں جھارکھنڈ ہائی کورٹ نے چھ ماہ کے اندر تمام اسکولوں میں لائیٹنگ کنڈکٹر لگانے کا حکم دیا تھا۔ ایجوکیشن پراجیکٹ کی جانب سے ویلج ایجوکیشن کمیٹی کو فی لائٹنگ کنڈکٹر 34 ہزار روپے خرچ کیے گئے۔ اس کے باوجود تمام ا سکولوں میں بجلی کے کنڈکٹر نصب نہیں کیے جا سکے۔ ڈیزاسٹر مینجمنٹ ڈپارٹمنٹ کے مطابق جھارکھنڈ میں گزشتہ سات سالوں میں آسمانی بجلی گرنے سے 1549 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور اس سال مئی تک آسمانی بجلی گرنے سے 27 افراد کی موت ہو چکی ہے۔
بہار میں بھی آسمانی بجلی گرنے سے ہر سال اوسطاً 300 لوگ مر جاتے ہیں۔بعض اوقات یہ تعداد اوسط سے بھی تجاوز کر جاتی ہے۔حکومت بہار کے ڈیزاسٹر مینجمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے مطابق آسمانی بجلی گرنے سے بچنے کے اقدامات کی جانکاری لوگوں تک پہنچا تو رہی ہے، لیکن دیہی علاقوں کے عام لوگوں تک معلومات بروقت نہیں پہنچ پاتی ہیں، جس کے نتیجے میں شہروں کے مقابلے بہار کی دیہی آبادی سب سے زیادہ اس کا شکار ہو جاتی ہے۔شہر کے اکثر گھروں میں کنڈکٹر کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن دیہات میں اس پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔کھلے کھیتوں میں پڑے لوہے کے تانبے کے سامان، آبی ذخائر، اونچے اونچے درخت بجلی کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔اس کے آس پاس رہ کر لوگ آسمانی بجلی کی زد میں آ جاتے ہیں۔
درحقیقت موسمیاتی تبدیلیوں سے پوری دنیا تباہ ہے۔ درختوں کی اندھا دھند کٹائی اور کنکریٹ کا بڑھتا ہوا جنگل موسمیاتی تبدیلی کی بڑی وجوہات ہیں۔ کبھی جھارکھنڈ میں درجہ حرارت 30-35 ڈگری سیلسیس تک پہنچتے ہی بارش ہو جایا کرتی تھی۔ اب40-47 ڈگری درجہ حرارت میں بھی بارش کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ یہ موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے کہ راجستھان کے ریگستانوں میں سیلاب آیا ہے، جب کہ بہار، جسے ہر سال سیلاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس بار اس پر خشک سالی کے بادل منڈلا رہے ہیں۔
****************