TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN -18 JUNE
ریاست بہار کی راجدھانی پٹنہ میں 23 جون کو ہونے والی اپوزیشن اتحاد کی میٹنگ کی تیاری جاری ہے۔میٹنگ میں شرکت کے لئے کانگریس کے سابق صدرراہل گاندھی اور موجودہ صدر ملکارجن کھڑگے بھی پٹنہ آ رہے ہیں۔ د ونوں 23 جون کو صبح 10:00 بجے پٹنہ پہنچیں گے اور ہوائی اڈے سے سیدھے صداقت آشرم جائیں گے۔ وہاں تقریباً 1:30 بجے تک رہیں گے۔ اس کے بعد وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی سرکاری رہائش گاہ جائیں گے۔ اپوزیشن اتحاد سے متعلق آل پارٹی میٹنگ وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ پر ہی بلائی گئی ہے۔راہل گاندھی اور ملکارجن کھڑگے کی پٹنہ آمد سے بہار کے کانگریسیوں میں خوب جوش ہے۔ دھیان رکھا جا رہا ہے کہ ان کے استقبال میں کوئی کمی نہیں رہ جائے۔صداقت آشرم کو سجانے اور سنوارنے کا کام شروع ہو چکا ہے۔ جن تمام کانگریس لیڈروں کو کل جماعتی میٹنگ میں شرکت کرنی ہے وہ صداقت آشرم سے ہی وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ کے لیے روانہ ہوں گے۔میٹنگ تقریباً 2 گھنٹے تک جاری رہنے کا امکان ہے۔میٹنگ میں شامل تمام اپوزیشن پارٹیاں مرکز میں بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی حکمت عملی تیار کریں گی۔معلوم ہوا ہے کہ میٹنگ میںجو بھی باتیں ہونگی انھیں میڈیا کے سامنے نہیں رکھا جائے گا۔ میڈیا کو صرف وہی باتیں بتائی جائیں گی، جن کوعظیم اتحاد عوام کے درمیان لانا چاہے گا۔
ادھر یہ بات لوگوں میں پھیل رہی ہے یا پھیلائی جا رہی ہے کہ میٹنگ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو گی۔ ہواؤں میں یہ بات بھی تیر رہی ہے کہ اپوزیشن اتحاد کی کوششوں کو بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کا خاطر خواہ تعاون نہیں مل رہا ہے۔ وہ بنگال کی سیاست کے مد نظر کانگریس کو بخشنے کے موڈ میں نظر نہیں آ رہی ہیں۔ حالانکہ ممتا بنرجی کی تجویز پرہی 23 جون کو پٹنہ میں اپوزیشن لیڈروں کی میٹنگ دہلی کے بجائےپٹنہ میں بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔دونوں لیڈر 23 جون کو پٹنہ آبھی رہے ہیں، لیکن کانگریس کے سلسلے میں ممتا بنرجی کے جس طرح کے بیانات سامنے آ رہے ہیں ، اس کے آثار اچھے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔اس صورتحال پر تنقیدی نظر رکھنے والے لوگ اب یہ دیکھنا چاہتے ہیں 23 کی کل جماعتی میٹنگ میں ممتا بنرجی اور راہل گاندھی ایک ساتھ بیٹھیں گے یا آمنے سامنے۔ حالانکہ وزیر اعلیٰ بہار ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو در گزر کرتے ہوئے بی جے پی کے خلاف اپوزیشن کو متحد کرنے کی کوشش میں شب و روز لگے ہوئےہیں۔
بہار کے وزیر اعلیٰ اور اپوزیشن اتحاد کے کو آرڈنیٹر نتیش کمار کی کوشش ہے کہ بی جے پی کے خلاف ہر سیٹ پر اپوزیشن کا ایک ہی امیدوار ہو، لیکن ملک کے موجودہ سیاسی حالات میں یہ کام آسان بھی نہیں ہے۔ سیٹوں کے تال میل کے معاملے میں ملک کی سب سے بڑی ریاست یوپی میں بھی اپوزیشن کا اتحاد کا شرمندۂ تعبیر ہوتا ہوا چند سیاسی مبصرین کو نہیں دکھائی دے رہا ہے۔اتر پردیش کی اہم اپوزیشن پارٹی(ایس پی) کے سربراہ اکھلیش پرساد یادو اپنے ایک نئے انتخابی فارمولے کی بنیاد پر اتر پردیش کا لوک سبھا چناؤ لڑنا چاہتے ہیں۔ان کا فارمولہ ہے ’’80 ہراؤ ، بھاجپا بھگاؤ‘‘۔ یہ فارمولہ اپوزیشن اتحاد کے فارمولے میں کہاں سیٹ ہوگا ، یہ دیکھنے کی بات ہوگی۔
قابل ذکر ہے کہ سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے تین مہینے پہلے کہا تھا کہ ان کے لیے کانگریس اور بی جے پی ایک ہی طرح کی پارٹیاں ہیں۔ ممتا بنرجی بھی اب یہی بات دہرا رہی ہیں۔ ٹی ایم سی چیف کا کہنا ہے کہ کانگریس بی جے پی کی گود میں بیٹھی ہے اور بی جے پی کانگریس کی گود میں ہے۔ جنوبی 24 پرگنہ ضلع میں ایک پروگرام کے دوران ممتا نے کہا ہے کہ کانگریس ہم سے تعاون چاہتی ہے اور ہم پر حملہ بھی کرتی ہے۔ ہم بی جے پی کے خلاف کانگریس کا ساتھ دینے کو تیار ہیں، لیکن سی پی آئی (ایم) سے ہاتھ ملانے کے بعد آپ ہمارا تعاون لینے بنگال نہیں آئیے گا۔
بر سبیل تذکرہ یہ بتا دینا ضروری ہے کہ بنگال میں کانگریس نے پنچایتی انتخابات کے لیے بائیں بازو کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا ہے۔ ممتا اور کانگریس کے چھتیس کے تعلقات مشہور ہیں۔ یوپی اور مہاراشٹر کے بعد بنگال میں لوک سبھا کی سب سے زیادہ 42 سیٹیں ہیں۔ مہاراشٹر میں مہا وکاس اگھاڑی پہلے سے ہی موجود ہے۔ اس اتحاد میں کانگریس، این سی پی اور شیوسینا کے ادھو ٹھاکرے گروپ شامل ہیں۔ دوسری جانب نتیش کمار اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پورے ملک میں بی جے پی کے خلاف ہر سیٹ پر اپوزیشن کا ایک ہی امیدوار ہو، لیکن آج کی سیاسی صورت حال میں یہ بہت دور کی بات ہے۔ سیٹوں کے معاملے میں ملک کی سب سے بڑی ریاست یوپی میں بھی اپوزیشن کا اتحاد کسی خواب سے کم نہیں ہے۔ اکھلیش یادو اس اتحاد میں نہیں شامل ہو سکتے ہیں، جس میں مایاوتی رہیں گی۔ سماج وادی پارٹی اور کانگریس کے درمیان انتخابی اتحاد قائم کرنا آسان نہیںہے۔اب ایسی صورتحال میں بی جے پی کے خلاف اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار کے فارمولے کو کیسے نافذ کیا جاسکے گا، یہ 23 جون کی میٹنگ کے بعد ہی سمجھ میں آ سکےگا۔چنانچہ 23 جون کی کل جماعتی میٹنگ پر پوری دنیا کی نظر ٹکی ہوئی ہے۔
******************************