متحدہ اپوزیشن مہم کے سامنے ایک اہم سوال

TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN –21 JUNE

بہار میں 23 جون کو اپوزیشن جماعتوں کی میٹنگ کا ایجنڈا بھلے ہی بی جے پی کے خلاف ملک کی اپوزیشن جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانا اور 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے موقع پر ’’ون ٹو ون ‘‘ فارمولے کی بنیاد پر تمام سیٹوں پر بی جے پی کے امیدوار کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے متفقہ طور پر صرف ایک امیدوار کو میدان میں اتارنا ہے، لیکن اب تک کی صورتحال کے مطابق ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا ہے۔میٹنگ سے دو دن پہلے 23 جون کی میٹنگ میں شرکت کرنے والے تمام لیڈورں کے نام ایک کامن لیٹر جاری کر کے یہ جتانے کی کوشش کی ہے کہ متحدہ اپوزیشن میٹنگ میں اپوزیشن کا پی ایم فیس طے کرنے اور ’’ون ٹو ون‘‘ کا فارمولہ لاگو کرنے کے علاوہ بھی ایک ایسا ایشو ہے ، جس پر اپوزیشن کا متحد ہونا ملک کے جمہوری اقدار کے تحفظ کے لئے ضروری ہے۔
در اصل دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال قومی دارالحکومت میں خدمات کے اختیار سے متعلق ضابطے پر مرکز کے آرڈیننس کے خلاف اپوزیشن حمایت حاصل کرنے کی کوشش 19 مئی ، 2023 سے ہی کر رہے ہیں۔قابل ذکر ہے کہ دہلی حکومت کے آفیسروں کے ٹرانسفر پوسٹنگ سے متعلق ایک معاملے کی سنوائی کرنے کے بعد  19 مئی کو سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ یہ اختیار عوام کے ذریعہ منتخب دہلی حکومت کو حاصل ہے ، لیکن ٹھیک اسی دن مرکزی حکومت نے ایک آرڈیننس جاری کرکے اس کے ذریعہ این سی آ ر، دہلی حکومت ایکٹ، 1991 میں بہت حد تک ترمیم کرتے ہائے سپریم کورٹ کے فیصلے کو پلٹ دیا گیا۔ اروند کیجریوال بھی اسی دن سے اس آ رڈیننس کی مخالفت کر رہے ہیں اور قومی سطح پر اس کی مخالفت کے لئے اپوزیشن کے تمام اہم لیڈروں کو متحد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔   اروند کیجریوال کی اس کوشش کا مقصد ہے کہ اپوزیشن کو متحد کرکے ایوان میں اس آرڈیننس کو منظور ہی نہیں ہونے دیا جائے۔اس کے علاوہ آرڈیننس کی متحدہ مخالفت کو اپوزیشن کی یکجہتی کے زاویے کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے،جس میں انھیں بہت حد تک کامیابی بھی ملی ہے۔ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار ، مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی،تلنگانہ کے وزیر اعلی اور بی آر ایس کے سربراہ کے۔چندر شیکھر راؤ ،سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو اور دیگر کئی بڑے اپوزیشن لیڈروں نے مرکز کے اس غیر جمہوری آرڈیننس کے خلاف کجریوال کی حمایت کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ لیکن ابھی تک کانگریس نے اپنا پتہ نہیں کھولا ہے۔مگر اور اب دہلی کے سی ایم نے اپوزیشن اتحاد کی میٹنگ سے ٹھیک پہلے ایک خط لکھ کانگریس کے سامنے اس پر اپنا موقف ظاہر کرنے کی حالت پیدا کر دی ہے۔
کیجریوال نے20جون کی تاریخ میں جاری اپنے خط میں لکھا ہے کہ پٹنہ میں اپوزیشن کی میٹنگ ہونے جا رہی ہے۔ اس میٹنگ میں سب سے پہلے مرکز کے آرڈیننس کے خلاف بحث ہونی چاہیے اور تمام فریقین کو اس میں تعاون کرنا چاہیے۔ انہوں نے خط میں یہاں تک لکھا ہے کہ اگر تمام پارٹیاں ایسا نہیں کرتی ہیں تو آنے والے دنوں میں مزید ریاستوں کے ساتھ ایسا ہو سکتا ہے۔ دراصل سپریم کورٹ نے دہلی حکومت کو خدمت کا حق دینے کا فیصلہ دیا تھا۔ یعنی ریاستی حکومت کو افسران کے ٹرانسفر پوسٹنگ کے حقوق مل گئے تھے۔ لیکن سپریم کورٹ کے حکم کے خلاف 19 مئی کو مرکزی حکومت نے ایک آرڈیننس لا کر ایک اتھا ریٹی بنا دی۔ میں نے مرکز کے آرڈیننس کے خلاف بہت سوچا ہے لیکن یہ سمجھنا غلط ہوگا کہ یہ صرف دہلی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ کیونکہ مرکزی حکومت یہ کام کسی بھی ریاستی حکومت کے ساتھ کر سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ملک میں جمہوریت ختم ہو جائے گی اور پورے ملک پر صرف ایک شخص کا اختیار ہو گا جو کہ ایک جمہوری ملک کے لیے خطرہ ہو گا۔ خط میں کیجریوال نے لکھا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب پی ایم تمام ریاستی حکومتوں کو 33 گورنروں اور ایل جی کے ذریعے چلائیں گے۔
سیاست کے چند ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ خط لکھ کر در اصل کیجریوال آرڈیننس پر کانگریس کو گھیرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن اس آرڈیننس پر کانگریس کی خاموشی بھی اپنے معنی رکھتی ہے۔ دہلی سے لے کر پنجاب، گجرات جیسی ریاستوں میں کانگریس کا براہ راست مقابلہ عام آدمی پارٹی سے ہے۔ اگر کانگریس اس مسئلہ پر براہ راست عام آدمی پارٹی کی حمایت کرتی ہے تو اسے سیاسی نقصان کا اندیشہ ہے۔ دوسرا، کجریوال 2024 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے خود کو اپوزیشن کے ایک مضبوط چہرے کے طور پر پیش کرنے میں لگے ہیں۔ دوسری طرف کانگریس نے مشن 2024 کے لیے راہل گاندھی کو پی ایم مودی کے مقابلے میں کھڑا کر دیا ہے۔ ایسے میں اپوزیشن پارٹیوں کی پٹنہ میں 23 جون کو ہونے والے اجلاس میں کانگریس کا کیا موقف ہوگا یہ تو اس دن معلوم ہوگا، لیکن اتنی بات تو ضرور ہے کہ اروند کیجریوال نے  اپنے خط کے ذریعہ پی ایم مودی کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی مہم کے سامنے ایک اہم سوال کھڑا کر دیا ہے۔
**************************