TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN -10 JUNE
مولانامحمد فیض رضارضوی
رسرچ اسکالر، دارالہدی اسلامک یونیور سیٹی ،ملاپرم ،کیرلا
یہ بات روزِروشن کی طرح عیاں ہے کہ عید الاضحی امت مسلمہ کے لیے مقدس تہوار ہے جو حضرت ابراہیم علی النبینا علیہ الصلاۃ والتسلیم کی یاد میں منایا جاتا ہے ،یہ رہتی دنیا تک کے مسلمان جو مالک نصاب ہیں ان کے لیے واجب ہے اور واجب رہے گااس امر عظیم کا حکم دیتے ہوئے خداتبارک وتعالی ارشاد فرماتا ہے ’’فصلی لربک وانجر ‘‘’’تو تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو‘‘(کنز الایمان )۔یہ سب سے پہلے حضرت ابر اہیم علیہ السلام اپنے رب کی رضا وخوشنودی کے لیے منائے تھے جو اللہ تبارک وتعالی کو اپنے خلیل کی ادا بہت پسند آئی اس کے بعد اللہ رب العزت نے جتنی بھی قومیںدنیا کے اندر بھیجاسب پر قربانی واجب قراردیا جس یادِ عظیم کو سب مسلمان صدیوں سے مناتے چلے آرہے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ کچھ اسلام دشمن عناصر جانوروں کے ذبح کرنے سے متعلق اعتراض کرتے ہیں اور طرح طرح کے الزامات کے منہ دکھاتے ہیں اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی ایک الگ اسکیم بناتے ہیں کہ قربانی میں جانوروں کو ذبح کیا جاتا ہے جس سے جانور کشی لازم آتا ہے ،جس کی وجہ سے جانوروں کی نسل ختم ہو جائیگی اور دوسرا اعتراض یہ کرتے ہیں کہ جانور میں بھی جان ہوتی ہے تو کیا انسانی تقاضا یہ نہیں کہ اس پر رحم کیا جائے اور تیسرا اعتراض محبت بھری انداز میں کچھ یوں کر تے ہیں کہ اگر یہی قربانی کا پیسہ غرباومساکین حضرات میں تقسیم کر دیا جائے تو اس سے اچھی بات اور کیا ہوسکتی ہے ؟۔تو معززقارئین یہ سب باتیں ان کو صرف قربانی کے موقع پر ہی کیوں یاد آتی ہیں؟ یہی غریب جب وہ مندر جاتے ہیں تو کیوں یاد نہیں آتے ہیں کہ سینکڑوں لیٹر تیل اور دودھ یوں ہی برباد کئے جاتے ہیں۔ انسانی تقاضا تو یہ بھی ہے کہ یہی دودھ غرباومساکین کو دے دیا جائے تو وہ اپنے دل کی تسکین حاصل کرینگے ۔تو سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ان کی دشمنی قربانی سے نہیں نہ وہ لوگ جانوروں کے حق میں باتیں کرتے ہیں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ان کو اگر جانوروں سے اتنا ہی لگاؤ ہوتا تو ہولی میں خصی اور دشہرہ میںکٹے کی بلی نہیں چڑھاتے بلکہ ان کو دشمنی اسلام سے ہے ،اسلام کے ماننے والوں سے ہے وہ یہ چاہتے ہیں کہ اسلام ہر طریقے سے بدنام ہو جائے اور دنیا سے اسلام کا نام ونشان مٹ جائے لیکن شاید انہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ …وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کر ے۔
ان کے اعتراضات کے جوابات سے پہلے امت مسلمہ کے لیے یہ پیغام ہے کہ اللہ تعالی جس چیز کو جس طریقے سے ادا کر نے کا حکم دیا ہے اس کو ویسے ہی ادا کرنا ہم پر لازم ہے اور ہم مسلمانوں کو سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام میں کچھ ایسی باتیں ہیں جن کی حکمت کو عقلِ انسان اچھے سے سمجھ سکتی ہے اور کچھ ایسی ہیں جن کی حکمت سے انسان کافی دور ہے ۔ایک مثال کے ذریعے سمجھتے چلیے کہ ہم پاخانہ یا پیشاب سبیلین سے کرتے ہیں اور محدث ہو تے ہیں لیکن وضو میں اعضاء ِ اربعہ میں سے تین کو دھوتے ہیں او ر ایک کو مسح کرتے ہیں اور اپنے آپ کو یہ جان لیتے ہیں کہ پہلے محدث تھے اور اب با وضو ہو گئے ۔اب یہاں مقام غوریہ ہے کہ انسان محدث سبیلین سے ہوتا ہے اور وضو میں اعضاء ِ اربعہ خاص ہے اس کی حکمت کیا ہے؟اس کی حکمت ایسی ہے کہ عقلِ انسان اس کو سمجھ ہی نہیں سکتی ہے اسی لیے بتایا جاتا ہے کہ اسلام کی کچھ باتوں کی حکمت صرف اللہ رب العزت ہی جانتا ہے ۔
انکا سب سے پہلا اعتراض یہ ہے کہ قربانی کرنے کی وجہ سے حیوان کی نسل کشی لازم آتی ہے جس کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جن چیزوں کو آپ کثرت سے استعمال کرتے ہیں اس میں اللہ تعالی زیادہ برکت عطا فرماتا ہے ۔آپ کو ایک مثال کہ ذریعے سمجھانا چاہتا ہوں کہ جن چیزوں کا استعمال کم ہو جاتا ہے وہ اشیاء بہت کم پائی جاتی ہیں۔جیسے پرانے زمانے میں کارِ زراعت بیل سے لیا جاتا تھا جو ہر گھر میں درجنوں پائے جاتے تھے مگر عصر حاضر میں مورڈن سائنس کا بول بالاہے جس کے سبب لوگ کھیتی باڑی ٹراکٹر سے کرتے ہیں ۔اب ماحول کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کیا اب بھی بیل اتنی ہی تعداد میں پائے جاتے ہیں جتنے تعداد میں پہلے پائے جاتے تھے؟۔خودمعترض کہ منہ سے آواز آیئگی’’ نہیں‘‘ اب تو بمشکل کہیں کہیں ہی بیل کا وجود نظر آتا ہے اور اس بات کو بھی ثابت کر دینا مناسب ہوگا کہ جن چیزوں کا استعمال کثیر تعداد میں کیا جاتا ہے اس میں بہت برکت ہوتی ہے۔اپنے ماحول کا جائزہ لیںگے تو معلوم ہوگا کہ کتیا سال میں دو بار بچے دیتی ہیں۔اور ایک ساتھ کم از کم آٹھ سے دس۔ معترض ہی بتا دیں کہ کتنے کتے پائے جاتے ہیں وہیں پر اگر بکری کی بات کی جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ صرف دو یا تین ہی بچے دیتی ہے اور جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوگا کہ ہر گھر میں پانچ سے دس تک بکریاں موجود ہی ہوتی ہیں ۔اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو چیز کم استعمال کی جاتی ہیں وہ زیادہ نہیں پائی جاتی ہیں اور جو زیادہ استعمال کیا جاتا ہے وہ کثیر تعداد میں پایا جاتا ہے۔کسی بھی شخص نے یہ بات نہیں سنی ہوگی کہ کہیں قربانی میں جانور کی کمی ہوئی ہے ۔ہاں مہنگا یا سستا ہونا یہ الگ بات ہے ۔
جہاں تک بات ہے انکے دوسرے اعتراض کی تو اسکا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ دنیا کے بقاء کے لیے کچھ نظام قائم ہے ۔جسے درہم برہم نہ ہونے کے لئے اللہ تعالی نے انسانوں کے لیے مرنے کا نظام قائم کیا ہے ۔جیسے اگر کسی شخص کو یہ معلوم ہو جائے کہ اب وہ نہیں مریگا تو سوچئے وہ انسان کتنا فسادو فتنہ برپا کریگا ۔اسی طرح انکا اعتراض ہے کہ جانوروں میں بھی جان پائی جاتی ہے لہذا اس پر رحم کیا جانا چاہئے ۔اور اسی جان کی بقاء کے خاطر ہم جانوروں کو ہرے بھرے گھاس میں چھوڑ دیتے ہیں یا اسکو کاٹ کر جانوروں کو کھلاتے ہیں ۔مقام غور یہ ہے کہ جب جانوروں میں جان ہے تو کیا یہ گھاس میں جان نہیں ہوتی ہے ؟۔اس وقت وہاں پر رحم کیوں یاد نہیں آتا؟۔اسی لیے کہا گیا ہے کہ جانوروں کے بقاء کی خاطر گھاس کو کاٹا جاتا ہے اسی طرح نسلِ انسان کی بقاء کی خاطرجانوروںکی قربانی دی جاتی ہے جس سے انسان گوشت کی شکل میں غذا حاصل کرتے ہیں ۔اور یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ ایک نہ ایک دن سب کو مرناہے چاہے انسان ہو یاحیوان تو اگر ہم اس کو حلال کر کے غذا حاصل کرتے ہیں تو اس میں نقصان کیا ہے ۔ہاں یہاں پر معترض پھر سے اعتراض کرینگے کہ جانوروں کو مرنے کے لئے ایک وقت معین ہے تو آپ کون ہوتے ہیں اس کو ذبح کرنے والے؟ ۔ تو ایسے شخص سے یہی کہا جائیگا کہ یہی اس کے مرنے کا وقت ہے اسی بہانے اس کو مرناتھا۔
اور جہاں تک انکا اعتراض ہے کہ قربانی کے پیسے غریب و غربا میں تقسیم کر دیا جائے تو کتنا اچھا ہوگا! ۔ان سب حضرات سے یہی کہا جائیگا کہ اس کے لئے آپ کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیوں کہ بانئی اسلام نے اپنے ماننے والوں کوپہلے ہی ایک مزین طریقہ بتا دیا ہے کہ پورے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے ۔ ایک حصہ غریب و غرباء کے لئے اور دوسرا حصہ اپنے احباب و اقارب کے لئے اور تیسرا حصہ اپنے اہل خانہ کے لئے رکھا جائے ۔اس نظام کے ذریعے سب غرباومساکین کو غذا مہیا کرایا جاتا ہے لہذا ایسے لوگوں سے ایک ہی اپیل ہے کہ اسلام کے حکمتوں کو دل و دماغ سے سمجھیںاور اسلام کے بارے میں اچھی باتیں لوگوں تک پہنچائے کیوں
کہ اسلام امن پسند مذہب تھا ، ہے اور رہیگا ۔