TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN –27 JULY
نئی دہلی،27جولائی: اپوزیشن ارکان پارلیمنٹ جمعرات کو سیاہ لباس پہن کر پارلیمنٹ پہنچے۔ اپوزیشن ارکان پارلیمنٹ کے مطابق انہوں نے یہ فیصلہ منی پور تشدد کے معاملے پر اپنے احتجاج کا اظہار کرنے کے لیے کیا ہے۔کانگریس سمیت زیادہ تر اپوزیشن جماعتوں نے مطالبہ کیا ہے کہ منی پور تشدد کے معاملے پر راجیہ سبھا میں قاعدہ 267 کے تحت تفصیلی بحث کی جائے۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ منی پور تشدد کے معاملے پر وزیر اعظم کو پارلیمنٹ میں بیان دینا چاہیے اور پھر اس بیان پر بحث ہونی چاہیے۔اگرچہ حکومت اور چیئرمین نے مختصر دورانیے کی بحث کی منظوری دے دی ہے مگر تفصیلی بحث کے مطالبہ کو ٹھکرا دیا ہے۔ اس مطالبے کو لے کر پارلیمنٹ میں اپوزیشن اور حکمراں جماعت کے درمیان مسلسل محاذ آرائی جاری ہے۔ دریں اثنا، منی پور کے معاملے پر اپنا احتجاج درج کرانے کے لیے اپوزیشن کے اراکین پارلیمنٹ نے کالے کپڑے پہن کر پارلیمنٹ میں آنے کا فیصلہ کیا۔کانگریس، عام آدمی پارٹی، جنتا دل یونائیٹڈ سمیت کئی اپوزیشن جماعتوں نے اپنے راجیہ سبھا کے ارکان پارلیمنٹ کے لیے وہپ جاری کیے ہیں۔ کانگریس کے رکن پارلیمنٹ اور راجیہ سبھا میں چیف وہپ جے رام رمیش نے تمام پارٹی ارکان پارلیمنٹ کے لئے تین لائنوں کا وہپ جاری کیا ہے۔ اس وہپ میں کانگریس پارٹی کے تمام راجیہ سبھا ارکان پارلیمنٹ کو بتایا گیا ہے کہ ’’27 جولائی 2023 بروز جمعرات راجیہ سبھا میں بہت اہم مسائل پر بحث کی جائے گی۔ راجیہ سبھا میں کانگریس پارٹی کے تمام اراکین سے عاجزانہ درخواست کی جاتی ہے کہ وہ ایوان میں موجود رہیں۔‘‘کانگریس کے علاوہ عام آدمی پارٹی نے بھی اپنے راجیہ سبھا ارکان پارلیمنٹ کو 27 اور 28 جولائی کو ایوان میں رہنے کے لیے وہپ جاری کیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اپنے راجیہ سبھا ارکان پارلیمنٹ کو وہپ جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ جمعرات 27 جولائی کو التوا تک ایوان میں رہیں اور پارٹی کے موقف کی حمایت کریں۔دراصل، مرکزی حکومت دہلی سے متعلق اپنے آرڈیننس کی جگہ راجیہ سبھا میں گورنمنٹ آف نیشنل کیپیٹل ٹیریٹری آف دہلی (ترمیمی) بل پیش کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ بل میں افسران کی تقرری اور تبادلے کے لیے ایک اتھارٹی کی تشکیل کی کوشش کی گئی ہے۔ حکومت اس بل کو راجیہ سبھا میں لائے گی۔ بھارت کے اتحادی ارکان پارلیمنٹ نے اس کی شدید مخالفت کی ہے۔ عآپ کے راجیہ سبھا رکن راگھو چڈھا نے راجیہ سبھا کے چیئرمین جگدیپ دھنکھڑ کو اس سلسلہ میں خط بھی لکھا ہے۔