شوگر سیکٹر کے احیاء کے توسط سے دیہی معیشت کو مہمیز دینا اور کسانوں کو بااختیار بنانا

TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN -21 JULY

 

جناب سنجیو چوپڑا
سکریٹری، محکمہ خوراک اور عوامی نظام تقسیم

حکومت ہند نے حال ہی میں شوگر سیزن 2023-24 کی خاطر گنے کے لیے 315 روپے فی کوئنٹل کی مناسب اور معاوضہ جاتی قیمت (ایف آر پی) کا اعلان کیا ہے، جس میں پیڈ آؤٹ پوسٹ نیز اِنپیوٹیڈ ویلیو آف فیملی لیبر (اے2+ ایف ایل لاگت) پر 100 فیصد سے زیادہ مارجن ہے۔ یہ فصلوں میں سب سے زیادہ مارجن میں سے ہے، جس سے کسانوں کے لیے زیادہ منافع کی یقین دہانی ہوتی ہے۔
اس فیصلے سے گنے کے تقریباً 5 کروڑ کسانوں کو فائدہ پہنچے گا جن میں ان کے زیر کفالت افراد بھی شامل ہیں۔ نئی ایف آر پی کا مقصد ہندوستانی چینی صنعت کی مسابقت کو یقینی بناتے ہوئے کسانوں کی امنگوں کو پورا کرنا ہے۔ ایف آر پی وہ بینچ مارک قیمت ہے جس سے نیچے کوئی چینی فیکٹری گنے کی خریداری نہیں کرسکتی، لہذا، یہ کم سے کم امدادی قیمت کی طرح ہے لیکن یہاں خریداری چینی فیکٹریوں کے ذریعہ کی جاتی ہے، حکومت کی طرف سے نہیں۔
ہندوستان میں چینی کی صنعت کی شاندار تاریخ رہی ہے اور وہ حالیہ برسوں میں ہی ایک مضبوط شعبے کے طور پر ابھر رہی ہے۔ 2020-21 تک کے 8 سالوں میں، حکومت ہند نے چینی کے شعبے کو مالیاتی بحران سے باہر لانے کے لیے 18,000 کروڑ روپے سے زیادہ کی مالی امداد فراہم کی، تاکہ ملوں کے ذریعے کسانوں کی ادائیگیاں فوری طور پر جاری کی جا سکیں۔ حالیہ برسوں میں، مرکزی حکومت کی جانب سے ہدف بند اقدامات، شوگر انڈسٹری کے تدبر اور مناسب عالمی عوامل نے شوگر کے شعبے میں بڑی تبدیلی پیدا کی ہے۔ شوگر سیکٹر کی صحت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2021-22 سے ایتھنول پروجیکٹوں کے لیے سود میں رعایت کی اسکیم کے علاوہ شوگر ملوں کو کوئی بجٹ امداد نہیں دی گئی۔ (اس کے تحت 30 جون 2023 تک 494 کروڑ روپے تقسیم کیے جا چکے ہیں)۔ جدید کاری اور تنوع کے لیے سیکٹر میں سرمائے کے اخراجات کی بڑھتی ہوئی سطح نے پچھلے 6 سالوں میں اس شعبے میں 30,000 کروڑ روپے سے زیادہ کی اضافی سرمایہ کاری کی ہے اور دیہی نوجوانوں کے لیے 50,000 سے زیادہ براہ راست اور بالواسطہ روزگار کے مواقع پیدا کیے ہیں۔ لسٹڈ کمپنیوں کے اسٹاک کی قیمتوں کے رجحانات نہ صرف اس شعبے کی موجودہ صحت بلکہ اس کے مستقبل کے امکانات کے بھی ایک قابل اعتماد اشارے ہیں۔ یہ دیکھا جاتا ہے کہ چینی کی چوٹی کی 10 کمپنیوں کی فہرست میں شامل کمپنیوں کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن (ان کی گنے کی کرشنگ کی صلاحیت کی بنیاد پر) پچھلے 4 سالوں میں دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔
شوگر سیکٹر میں بڑی تبدیلی کا سہرا تین بڑے عوامل کو دیا جا سکتا ہے۔ اہم اقدام جس نے چینی کے شعبے کی بحالی میں سب سے زیادہ کردار ادا کیا ہے، وہ نیشنل بائیو فیول پالیسی 2018 ہے، جو پیٹرول کے ساتھ ایتھنول کی ملاوٹ کو فروغ دیتی ہے۔ اگرچہ ایتھنول بلینڈنگ ود پیٹرول (ای بی پی) پروگرام 2003 سے زیرِ عمل ہے، تاہم نیشنل بائیو فیول پالیسی کے اعلان کو واٹرشیڈ ایونٹ (بڑی تبدیلی لانے والا اقدام) قرار دیا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں اس شعبے کا احیاء ہوا ہے۔
اس کے بعد سے، متعدد پالیسی اقدامات نے ایتھنول پلانٹس کے قیام کے طریقہ کار کو آسان بنایا ہے اور گڑ سے پیدا ہونے والے ایتھنول کے لیے منافع بخش قیمتوں کی پیشکش کی ہے۔ مرکزی حکومت نے ایتھنول پروجیکٹوں کے لیے سود میں سبوینشن اسکیم (رعایت کی اسکیم) بھی متعارف کروائی ہے، جس کے تحت 6 فیصد سالانہ سود یا 50 فیصد سود، جو بھی کم ہو، 5 سال کے لیے پروجیکٹ کے حامیوں کو ملک میں ایتھنول کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کی ترغیب دینے کے لیے ادا کیا جاتا ہے۔ 2018 سے اس اسکیم کے تحت 4,400 کروڑ لیٹر کی متوقع صلاحیت کے ساتھ 1200 سے زیادہ پروجیکٹوں کو مرکزی حکومت نے اصولی منظوری دی ہے۔ صرف دو سالوں میں ایتھنول کی ملاوٹ کا فیصد دوگنا ہوگیا ہے اور ایتھنول سپلائی ایئر (دسمبر – نومبر) 2020-21 کے دوران تقریباً 434 کروڑ لیٹر ایتھنول کی ملاوٹ کی گئی، جو کہ ہدف سے 10 فیصد زیادہ ہے۔ ای بی پی پروگرام اب 2025 تک 20 فیصد ایتھنول ملاوٹ کے ہدف کو حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہے، جو ہندوستان کو دنیا کا تیسرا سب سے بڑا ایتھنول پیدا کرنے والا ملک بنا دے گا۔ ایتھنول بلینڈنگ پروگرام کے نتیجے میں گزشتہ چار برسوں کے دوران چینی پر مبنی ڈسٹلریز کے معاملے میں 51,000 کروڑ روپے سے زیادہ کی اضافی آمدنی ہوئی ہے۔ اس سال، آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو ایتھنول کی فروخت کرکے ڈسٹلریز کے ذریعے 22,000 کروڑ روپے سے زیادہ کی کمائی کرنے کی امید ہے۔
چینی کی برآمد دوسری بڑی پیش رفت ہے جس کی وجہ سے شوگر ملوں کے بنیادی اصولوں کو تقویت ملی ہے۔ تقریباً صفر کی برآمدات سے، ہندوستان نے چینی کے سیزن (نومبر-اکتوبر) 2021-22 میں 110 لاکھ ٹن چینی برآمد کی ہے اور دنیا میں چینی کا دوسرا سب سے بڑا برآمد کنندہ بن گیا ہے۔ برآمدات نے، دیگر چیزوں کے ساتھ، شوگر سیکٹر کو اپنی اضافی انوینٹری کو ڈسپوز کرنے کے قابل بنایا ہے، جو اب تک شوگر ملوں کے فنڈز کو روکنے اور گنے کے کاشتکاروں کو ادائیگیوں میں تاخیر کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ ہندوستانی چینی نے اب برآمدی منڈی میں مضبوط قدم جما لیے ہیں اور بلند عالمی قیمتوں کا بہترین فائدہ اٹھایا ہے، جو پچھلے 3 سالوں میں تقریباً دوگنا ہو چکی ہے۔تیسرا عنصر شوگر ملوں کے پروڈکٹ باسکیٹ کے تنوع سے متعلق ہے۔ شوگر سیکٹر آج ایک سرکلر اکانومی والے ملک میں ایک مشعل بردار کا کام کررہا ہے جس کا ماحول پر کم سے کم اثر پڑتا ہے۔ صنعت، کو-جن پاور، پوٹاش پر مبنی کھادوں اور کمپریسڈ بائیو گیس (سی بی جی) پیدا کرنے کے لیے پریس مڈ کے استعمال سے ویلیو ایڈیشن کا کام کررہی ہے۔ شوگر انڈسٹری نے نہ صرف اپنی ضروریات کو پورا کرنے بلکہ گرڈ کو اضافی بجلی فراہم کرنے کے لیے بجلی پیدا کرنے کی خاطر بیگاس کو مؤثر طریقے سے استعمال کیا ہے۔ 9500 میگاواٹ کی صلاحیت کے ساتھ، چینی کا شعبہ اپنے گرین پاور کوجنریشن انفرا اسٹرکچر سے تقریباً 10,000 کروڑ روپے کی آمدنی حاصل کر رہا ہے۔ انٹیگریٹڈ شوگر کمپلیکس میں ڈِرِپ اریگیشن اور پانی کے موثر استعمال کی وجہ سے شوگر ملوں کے پانی کے استعمال میں کمی آرہی ہے۔ سیکٹر ان تمام اقدامات کو کمائی کرنے اور کاربن کریڈٹ کے حصول کے لئے استعمال کرنے کی خاطر اچھی طرح سے تیار ہے۔ اس طرح یہ سیکٹر نیٹ زیرو ایمیشنز کے لیے سی او پی 26 معاہدوں کے تحت ہندوستان کے اہداف کو پورا کرنے میں گراں قدر تعاون دے رہا ہے۔شوگر ملوں کے بڑھتے ہوئے منافع نے دو بڑے حصص داروں یعنی کسانوں اور صارفین کو بھی فائدہ پہنچایا ہے۔ شوگر ملوں کے بہتر کیش فلو نے کسانوں کے گنے کے واجبات کی تیزی سے ادائیگی کی راہ ہموار کی ہے۔ دستیاب اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 1 جولائی 2020 تک گنے کے 73 فیصد واجبات ادا کیے جا چکے ہیں، اس سال اسی تاریخ تک کاشتکاروں کو 90.8 فیصد واجبات ادا کر دیے گئے ہیں۔ چینی کی مقامی قیمتوں میں استحکام کی وجہ سے صارفین کو بھی فائدہ ہوا ہے۔ اگرچہ اپریل 2023 میں چینی کی بین الاقوامی قیمتیں گیارہ سال کی بلند ترین سطح کو چھو گئیں، تاہم مقامی خوردہ قیمتیں 3 فیصد سے بھی کم مہنگائی کے ساتھ مستحکم رہیں۔
اضافی آمدنی کے سلسلے اور سبز توانائی کے مرکز میں منتقلی کے ساتھ، چینی کا شعبہ بہت زیادہ مضبوط اور خود کفیل ہوگیا ہے۔ یہ سازگار پالیسی ماحولیاتی نظام کی مدد سے حصص داروں کی ٹھوس کوششوں کے سبب ممکن ہوا ہے۔
*********
PIB