کشتی حادثے کے بعد سینکڑوں پاکستانیوں نے یورپ جانے کا خواب ترک کردیا

TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN –26 JULY      

دبئی ،26جولائی :سینکڑوں پاکستانی جو مغربی ملکو ںمیں منتقل ہونے کے خواہش مند تھے کے خواب حالیہ کشتی سانحہ کی وجہ سے چورچور ہوگئے اور وہ مختلف ملکوں سے وطن واپسی کررہے ہیں۔ یونان کے سمندری سرحد کے قریب ایک کشتی حادثے میں 400سے زیادہ پاکستانی مارے گئے جن میں سے مقبوضہ کشمیر کے ایک گائوں کے 30افراد شامل ہیں محمد نعیم بھٹ اپنے دوسرے ساتھیوں کی طرح مغربی ملکوں میں بسنا چاہتا تھا لیکن اس کشتی حادثے نے ان کو گھر واپس آنے پر مجبور کیا وہ 18جولائی کو لیبیا سے وطن واپس أگئے اور واپسی پر اپنی ماں رضیہ کا سرچوما اورتوبہ کیا کہ وہ آئندہ ایسی غلطی نہیں کریں گے۔ اس کشتی حادثے میں 600سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے محمد نعیم بھٹ بھی لیبیا پہنچ گیا تھاتا کہ وہ وہاں سے غیر قانونی طریقے سے یورپ میں داخل ہوسکے۔ اس کے ساتھ کئی اور لوگ بھی شامل تھے۔ عالمی اردوسروس کے شیخ منظور احمد کو مختلف سفارتی ذرائع سے یہ تفصیل ملی کہ افغان ،پاکستانی ،شام ،لیبیا اور عراق کے باشندے مغربی ملکو ں میں بسنے کے خواہش مند ہیں۔ اس میں کچھ ہندستان کے لوگ بھی مزوری اور دوسرا پیشہ اختیار کرنے کے لئے مغرب جانا چاہتے ہیں لیکن مغربی ملکوں نے امیگریشن کے قوانین کو سخت کردیا اور سمندر کی نگرانی بڑھا دی ہے تا کہ لوگ غیر قانونی طریقے سے داخل نہ ہوں۔ اکثر ان لوگو ں کو چھوٹی چھوٹی کشتیو ںاور بوٹوں کے ذریعہ یورپ کے ساحلوں پر لیا جاتا ہے تا کہ وہ وہاں سے اگلا سفر شروع کریں۔ بھٹ نے کے کہ جب میں نے اس کشتی حادثے کے بارے میں سنا تو میرے ہوش اڑ گئے۔ مغربی ملکو ںمیں رسانی حاصل کرنے کے لئے انہیں لاکھوں روپئے خرچ کرنے پڑتے ہیں کیونکہ ٹراوئل ایجنٹ انہیں مختلف ملکوں کے زریعہ یونان ،اسپین ،فرانس اور دوسرے ملکوں میں غیر قانونی طور پر داخل کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ محمد نعیم بھٹ نے کہا کہ اس نے یورپ جانے میں کے لئے اپنی بیوی کا زیور اور قرض لیا تا کہ وہ انسانی اسمگلروں کو دے سکے۔ اکثر لوگوںکو پہلے دبئی اور پھر مصر لے جا یا جاتا ہے اور پھر وہاں سے بسوں میں بھر بھر کر لیبیا کے سمندری شہرو ں میں بھیجا جاتا ہے وہاں ان کومسافر خانوں میں رکھا جاتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ وہاں پر اس نے دومہینے گزارے اور کھانا بھی صحیح ڈھنگ سے ملتا تھا اس کے بعد کشتیوں کے ذریعہ یورپ بھیجنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوا کہ سمندر میں ہفتوں بھٹکتے رہے۔ لیکن انہیں منزل نہیں ملی ۔ کشتی میں انہیں ابلا ہوا چاول دیا جاتا ہے اس دوران بین الاقوامی تنظیم برائے ہجرت نے کہ کہا کہ بحرے روم ہجرت کے لئے سب سے زیادہ خطرناک راستہ ثابت ہوا ۔ ا س سال 1700سے زیادہ لوگ موت کے شکار ہوگئے۔ حال ہی میں پاکستان میں کئی انسانی اسمگلروں کے ایجنٹوں کو گرفتار کیا گیا او ران کے خلاف کارروائی بھی شروع کی گئی ہے۔ اس دوران یورپی یونین کے قانون سازوں نے مطالبہ کیا کہ تمام ممالک کو لوگوںکو بچانے کے لئے اپنے انتظامات درست کرنے کی ضرورت ہے لیکن بدقسمتی سے انتظامیہ کا سلوک غیر ذمہ دارنہ ہے اور وہ پناہ گزینوں کے خلاف سختی سے پیش آرہی جس کی وجہ سے اتنے بڑے حادثہ پیش آرہے ہیں۔