TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN -22 AUG
مہاتما گاندھی کی کرم بھومی چمپارن کو فرقہ وارنہ فساد ات کی آگ میں جھونکنے کی سازش ہو رہی ہے۔ حالانکہ اب تک یہ سازش کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ مشرقی چمپارن تین بلاکس میںناگ پنچمی اورمغربی چمپارن کے بگہا سب ڈویزنل ٹاؤن کے بگہا ٹاؤن تھانہ علاقہ میں رام نومی کے جلوس پر سنگ باری کر مہاویر جی کی مورتی توڑ ڈالنے کی افواہ پھیلا کر چند شر پسندوں نے فرقہ وارانہ ماحول کو بگاڑنے کی بھرپور کوشش کی۔نتیجے کے طور پر جلوس میں شامل دنگائیوں نے اشتعال انگیز نعرے لگاتے ہوئے دوسرے فرقے سے تعلق رکھنے والوں کے گھروں اور دکانوں پر خوب پتھر برسائے اور آگ زنی کی۔اس وجہ سے دونوں فرقوں کے درمیان پرتشدد جھڑپیں ہوئیں۔
مشرقی چمپارن ضلع انتظامیہ نے تو چند گھنٹوں کے بعد ہی حالات پرقابوپا لیا ، لیکن مغربی چمپارن کے پولس ضلع بگہا کی انتظامیہ بالخصوص ایس ڈی پی او کیلاش پرساد، ایس ایچ او انِل کمار اور سرکل انسپکٹر ( لا اینڈ آرڈر)کی مجرمانہ لا پروائی کی کی وجہ سے وہاں صورتحال ابھی تک بہتر نہیں ہو سکی ہے۔حالانکہ ڈی آئی جی ،بتیا جینت کانت، ڈی ایم دنیش کمار رائے اور ایس پی(پولس ضلع بگہا) کرن کمار گورکھ جادھو حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔حالانکہ تادم تحریر حالات ابھی بھی دھماکہ خیز ہیں۔رام نومی کے تہوار کے موقع پر بگہا میں وقوع پذیر اس صورتحال کوعلاقے کے امن پسند لوگ 2024 کے لوک سبھا اور 2025 کے بہار وِدھان سبھا کے انتخابات سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ بگہاٹاؤن تھانہ کے تحت محلہ رتن مالا سے 21 اگست کو رام نومی کا اشتعال انگیز جلوس نکلا ۔ جلوس میں مہاویری جھنڈا، ڈنڈا، تلوار اور دیگر ہتھیار سے آراستہ سیکڑوں کی تعداد میں لوگ شامل تھے۔راستے میں جامع مسجد تھی۔ وہاں آکر جلوس میں شامل لوگ مزید مشتعل ہو گئے۔مسجد کی دیوار پر جھنڈا اور ڈنڈا پٹکنے اور ایک خاص طرح کا نعرہ لگانے لگے ۔جلوس میں شامل لوگ اتنا پر ہی بس نہیں کیا۔ وے لوگ پاس کے مسلم محلے میں داخل ہونے کی کوشش کرنے لگے۔اس طرح کی صورتحا ل پیدا ہونے کے بعد مسلمان نوجوان بھی سامنے آگئے ۔ انھوں نےپہلے جلوس والوں کو سمجھانے بجھانے کی کوشش کی، لیکن جب حالات بے قابو ہونے لگے اور لاٹھی، ڈنڈے ، تلوار اور دیگر اسلحوں کے ساتھ جلوس مسلم محلے میں داخل ہونے کی کوشش کرنے لگا تو مسلمانوں کی جانب سے بھی جوابی اور دفاعی اقدام کے طور پر روڈ پر پڑےاینٹوں کے ٹکڑ ے جلوس کی طرف چلا ئے جانے لگے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے جلوس والوں طرف سے پتھراؤ، توڑ پھوڑ اور آتش زنی شروع کر دی گئی۔ اس روڈ میں جہاں جہاں مسلمانوں کے گھر اور دکانیں تھیں ، ان پر سنگ باری ، توڑ پھوڑ اور آگ زنی ہونے لگی۔ان پر تشدد جھڑپوں میں گرچہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔ مگر دو پولیس اہلکاروں اورتین صحافیوں سمیت بارہ افراد زخمی ہوگئے ہیں۔ معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ڈی ایم دنیش رائے اور ایس ڈی ایم ڈاکٹر انوپما سنگھ موقع پر پہنچ گئے تھے۔ اس کے بعد بڑی تعداد میں پولیس اہلکار تعینات کر دیے گئے تھے ، جب تک ڈی ایم بگہا میں موجود تھے ، مقامی پولس کے ذریعہ وہاں سب کچھ بہتر بناکر پیش کیا گیا، لیکن ڈی ایم کی غیر موجودگی میںجلوس میں شا مل چند لو گوں کی طرف سے اشتعال انگیز ی منگل کے روز بھی جاری رکھی گئی۔حالات کی سنگینی کے مد نظر کل دو پہر ڈی آئی جی ،بتیا جینت کانت، ڈی ایم دنیش کمار رائے اور ایس پی(پولس ضلع بگہا) کرن کمار گورکھ جادھو اور دیگر افسران نے بگہا کے کئی محلوں کا دورہ کیا اور شہر کے ماحول کو بہتر اور پر امن بنانے کے لئے سول سوسائیٹی کوآگے آنے کی اپیل کی۔
اس پورے معاملے کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اس کے پیچھے صرف اور صرف ان لوگوں کی سازش کار فرما ہے ، جو 2024 کے لوک سبھا اور 2025 کے بہار وِدھان سبھا کے مد نظر اپنے حق میں ووٹوں کے پولرائیزیشن کے لئے طرح طرح کے حربے استعمال کرنے کے عادی ہیں۔اس طرح کی سیاست کرنے والوں نے ضلع ہیڈ کوارٹر بتیا اور سب ڈویزنل ٹاؤن نرکٹیا گنج میں بھی رام نومی کے موقع پر گزشتہ سوموار
کو سماجی ہم آہنگی اور مذہبی روادی کو بگاڑنے کی کوشش کی تھی لیکن وہاں کی انتظامیہ مستعدی اور امن پسند عوام کی سوجھ بوجھ کی وجہ سے ان لوگوں کی دال نہیں گل سکی۔ ادھر بگہا کے عوام کی شکایت ہے کہ ایس پی(پولس ضلع بگہا) کرن کمار گورکھ جادھو چھٹی پر نہیں جاتے اور ٹاؤن تھانہ کے ایس ایچ او انِل کمار، ایس ڈی پی او کیلاش پرساد، سرکل انسپکٹر آنند کمار سنگھ اور ایس ڈی ایم ڈاکٹر انوپما کماری نے اپنی ذمہ داری کو بخوبی نبھایا ہوتا تو بگہا کا ماحول قطعی خراب نہیں ہوتا۔بگہا کے عوام کا مطالبہ ہے کہ جتنی جلدی ہوسکے ان چاروں افسران کا تبادلہ کیا جانا ضروری ہے۔جب تک یہ بگہا میں بنے رہیں گے وہاں کا ماحول بہتر نہیں ہو سکتا ہے۔
************