TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN –14 AUG
پٹنہ: ۱۴؍اگست۲۰۲۳ء۔ خدا بخش لائبریری میں14 اگست 2023 کو تقسیم کا المیہ (Partition Horrors Remembrance Day) پر کتابوں کی نمائش اوراسی موضوع پر لکچر کا اہتمام کیا گیا ۔ ڈاکٹر شائستہ بیدار، ڈائریکٹر خدا بخش لائبریری نے اس موقع پر فرمایا کہ ہندوستان کی تقسیم بیسویں صدی کی دنیا کے بڑے سانحات میں سے ایک سانحہ تھی۔ دنیا میں ایسے چند المناک واقعے پیش آئے جن میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے اور جانیں بچانے کے لئے بڑے پیمانے پر دونوں طرف نقل مکانی کی ۔ تقسیم ہند کے المیہ یا سانحہ کے زخم ابھی تک مکمل طور پر مندمل نہیں ہوئے۔ تقسیم ملک کے قصے کہانیوں کو کتابوں میں خصوصی طور پر جگہ دی گئی۔ پرمیشر سنگھ؍احمد ندیم قاسمی ، ٹوبہ ٹیک سنگھ؍سعادت حسن منٹو اور ہم وحشی ہیں؍کرشن چندر مشہور کہانیاں ہیں جو برسوں یاد رہیں گی۔ ایسی بے شمار کتابیں ہیں جن میں درد ناک اور متاثرکن انداز میں بتایا گیا کہ تقسیم ہند کی مصیبتوں کا سب سے زیادہ منفی اثر خواتین پر پڑا۔ تاریخی کتابوں میں ایسے ہزاروں لاکھوں واقعات درج ہیں جو تقسیم کے وقت پیش آئے انسانی سانحہ کی المناک یادوں کو تازہ کردیتے ہیں۔تقسیم سے لوگوں کے دل آج بھی غم زدہ ہیں۔ تقسیم کے اسی المیہ کی یاد دہانی کے لئے کتابوں کی نمائش اور لکچر کا اہتمام کیا گیا ہے۔
مشہور مؤرخ اور لائبریری کے سابق ڈائرکٹر ڈاکٹر امتیاز احمد نے فرمایا کہ سب سے پہلے ہم ان لوگوں کی یاد تازہ کریں جو اس سانحہ کے شکار ہوئے۔ اس سانحہ میں بیس لاکھ لوگ مارے گئے اور ڈیڑھ کروڑ لوگ بے گھر ہو گئے۔ تقسیم سے ہندو ،مسلم، سکھ سب پریشان ہوئے۔ ہجرت کی جو تصویریں آج موجود ہیں، ان سے تقسیم کی ہولناکی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ان تصویروں کو غور سے دیکھئے ان میں کوئی شناخت نہیں ملے گی، صرف انسان ملے گا۔ اس سانحہ میں خواتین اور بچے بھی مارے گئے، ان کا صرف یہ قصور تھا کہ وہ کسی ایک مذہب کو ماننے والے تھے۔اس سانحہ میں انسانی اقدار کی پامالی انتہا کو پہنچ گئی تھی۔ جان، مال اور بھائی چارہ کا زبردست نقصان ہوا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اقتدار کی منتقلی تھی اور انگریزوں کی کوشش یہی تھی کہ ہندستان کی آزادی تقسیم کے ساتھ ہو۔ گاندھی جی نے اس سانحہ سے متاثر ہو کر کہا تھا کہ ایشور اب ہمیں اٹھا لے کہ اس حیوانیت کو دیکھنے کی سکت باقی نہیں ہے۔ مولانا آزاد نے تقسیم کے غلط فیصلہ کو اس کا ذمہ دار مانا۔ اس زمانے کے اردو فکشن میں بھی اس سانحہ کا درد جھلکتا ہے۔مقرر نے یہ بھی کہا کہ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ آج آزادی کو پچھتر سال گزرنے کے بعد بھی ہم وہی مناظر دیکھتے ہیں۔ ہم ابھی بھی دھرم، ذات اور زبان کے نام پر بٹے ہوئے ہیں۔ اب ساری ذمہ داری نوجوان نسل کی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اچھا بنائے رکھیں اور اس دیش کو ایک خوشگوار ماحول دیں، یہ آپ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ ہندستانی تاریخ کے دو عظیم شخصیت اشوک اور اکبر نے بھی اسی بھائی چارہ کی بات کہی تھی۔
پروفیسر مجتبی حسین نے اپنے صدارتی خطبہ میں فرمایا کہ تاریخ کو نکارا نہیں جاسکتا۔ انگریز نے ہندستان کے دو بڑے طبقوں ہندو اور مسلمان کو آپس میں بانٹ دیا۔ چونکہ ہم نا سمجھ تھے، اس لئے اس کی چال میں پڑگئے۔ ہندو مسلم اتحاد سے انگریز بہت پریشان رہا کرتے تھے اور جب دیش کا بٹوارا ہوا تو اس کی چال کامیاب ہوگئی۔تقسیم کے المیہ سے ہمیں بہت کچھ سیکھنا ہے۔ ہندستان میں بڑی صلاحیت موجود ہے البتہ غلط پالیسی کے سبب ہم کامیاب نہیں ہو پارہے ہیں۔ ہمارا دکھ یہ ہے کہ تقسیم کے المیہ سے ہم نے کچھ نہیں سیکھا، آج بھی نفرت کا بازار گرم ہے۔ ضرورت ہے کہ اس نفرت کی آگ کو ختم کیاجائے، ورنہ انسانیت دم توڑ دے گی۔
اس موقع پر طالب علموں نے بھی اظہار خیال کیا اور چند سوالات پوچھے، جن کے تشفی بخش جواب دئے گئے۔اخیر میں ڈائرکٹر صاحبہ نے اعلان کیا کہ 16اگست کو تحریک آزادی پر کتابوں کی نمائش کا اہتمام کیا گیا ہے۔