TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN -26 AUG
افتتاحی تقریب سے پروفیسر مہ جبیں خانم،ڈاکٹر اسلم جاوداں،ڈاکٹر ریحان غنی، محمد صبیح الحق، پروفیسر عارف حسین، ڈاکٹر آصف سلیم،ایس ایم اشرف فرید، ڈاکٹر یعقوب اشرفی اور ڈاکٹر انوارالہدیٰ کا خطاب
پٹنہ26اگست(پریس ریلیز):راجدھانی پٹنہ کے اشوک راج پتھ میں دیپ گنگا کمپلیکس میں واقع مشہور تعلیمی ادارہ آکسفیم کے زیر نگرانی سیڈ کوچنگ سنٹر کی جانب سے بلاامتیاز ذات و مذہب سبھی طبقہ کے طلبا وطالبات کو انگریزی، ہندی اور کمپیوٹر کی بنیادی تعلیم دیے جانے کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے اب انہیں بہار کی دوسری سرکاری زبان ’’اردو‘‘ کی بنیادی تعلیم سے آراستہ کرنے کے مقصد سے اردو کلاسز کا باضابطہ آغاز کیا گیا ہے جس کا باضابطہ افتتاح سنیچر کو منعقد تقریب میں نامور دانشوروں کی موجودگی میں کیا گیا۔اس موقع پر غیر اردو داں طلبا و طالبات بھی اردو کلاسز میں شریک ہوئے اور اردو سے اپنی محبت کا پُرجوش مظاہرہ کرتے ہوئے اس زبان کو سیکھنے اور جاننے کا عزم کیا۔ تقریب سے خطاب کرتی ہوئیں۔ تقریب میں پروفیسر مہ جبیں خانم، پروفیسر جاوید خان، سینئر صحافی ڈاکٹر ریحان غنی،پیر بہور تھانہ صدر محمد صبیح الحق،مولانا حامد حسین ندوی،پروفیسرعارف حسین، ڈاکٹر اسلم جاوداں،ڈاکٹر آصف سلیم، سرگرم نوجوان سیاست داں مولانا شکیل ہاشمی،ایس ایم اشرف فرید، ڈاکٹر انوارالہدیٰ،صحافی عتیق الرحمن شعبان اور دیگر سرکردہ شخصیتوں نے بطور مہمانان تقریب میں شرکت کیں۔اردو کلاسز کی افتتاحی تقریب میں سبھی مہمانوں کا والہانہ استقبال کرتے ہوئے آکسفیم کے ڈائرکٹر اور سیڈ کوچنگ سنٹر کے انچارج ڈاکٹر یعقوب اشرفی نے کہا کہ اردو کلاسز شروع کرنے کا فیصلہ بہت ہی سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے جو وقت کی ایک بڑی ضرورت ہے اور اردو کی بنیادی تعلیم سے طلبا وطالبات کے اندر نئی روشنی و توانائی پیدا ہوگی۔ اردو جاننے سے ہندی اور انگریزی زبان پر بھی ان کی گرفت مضبوط ہوجائے گی اور پھر اردو جیسی شیرینی زبان حاصل کرکے وہ کسی بھی محفل کی رونق بن سکتے ہیں۔اردو محبت اور بھائی چارہ کی زبان ہے۔ اس کا تحفظ و فروغ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔سیڈ کوچنگ سنٹر میں انگریزی ، ہندی اور کمپیوٹر کی بنیادی تعلیم کے ساتھ ساتھ اب اردو کی بھی بنیادی تعلیم طلبا و طالبات کو مفت فراہم کی جائے گی۔ افتتاحی تقریب سے خطاب کرتی ہوئیں پروفیسر مہہ جبیں خانم نے کہا کہ اردو بہار کی دوسری سرکاری زبان ہے لیکن کوئی بھی زبان صرف حکومت کے بھروسے نہ تو زندہ رہ سکتی ہے اور نہ فروغ پاسکتی ہے اس لئے اردو کو زندہ رکھنا اور فروغ دینا اردو آبادی کی ذمہ داری ہے۔ اردو کی تعلیم کو عام کئے جانے کی شدید ضرورت ہے۔ سینئر صحافی ڈاکٹر ریحان غنی نے کہا کہ اردو خالص ہندوستانی زبان ہے جو اسی ملک میں پلی بڑھی اور پروان چڑھی۔ آج یہ زبان پوری دنیا میں پڑھی، بولی اور سمجھی جا رہی ہے لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اسے اپنے گھروں سے نکال دیا ہے۔ ہمارے گھروں میں اردو اخبارات و رسائل پڑھنے کا چلن ختم ہوتاجا رہا ہے۔ انہوں نے بہت تفصیل سے بتایا کہ آزادی سے قبل ہندوستان میں بیشتر ہندوئوں کی مادری زبان اردو ہی ہوا کرتی تھی اور گوپی ناتھ امن، دیانارائن نگم، فراق گورکھپوری جیسے بے شمار ایسے شاعر، ادیب اور صحافی گذرے ہیں جو اردو کی بدولت مشہور و مقبول ہوئے اور اردو ادب میں ایک خاص مقام بنایا۔ ڈاکٹر ریحان غنی نے کہا کہ پہلے بھی اردو نے ہی اس ملک میں امن وشانتی کا پیغام دیا اور آج بھی یہ زبان اپنا یہ فرض نبھا رہی ہے۔
انہوں نے اس موقع پر یعقوب اشرفی کو مفت اردو لرننگ کورس شروع کرنے کے لیے مبارکباد پیش کی۔ اردو کونسل ہند کے ناظم اعلیٰ ڈاکٹر اسلم جاوداں نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اردو کے ساتھ بڑا المیہ ہے کہ آج ہم نے اپنے ہی گھروں سے اردو کو باہر کردیا ہے اور اردو اب اپنے گھر میں ہی اجنبی بن کر رہ گئی ہے۔ یہ صورت حال بہت ہی افسوسناک ہے۔ ہم اردو آبادی کو اپنے گھروں کے اندر اپنی مادری زبان اردو کو زندہ رکھنے اور اسے رواج دینے کی ضرورت ہے۔ بچوں کو اردوکی بنیادی تعلیم ضرور دی جائے اور گھروں کے اندر کثرت سے اردو بولی جائے۔ اپنے بچوں کو ہم ممی، پاپا، ڈیڈی اور انکل و آنٹی کہنا ہرگز نہ سکھائیں بلکہ اس کے بجائے ابو جان، امّی جان، چچا جان، ماموں جان، دادی جان، دادا جان، خالو جان وغیرہ کہنا سکھائیں۔ اس سے اردو نہ صرف زندہ رہے گی بلکہ فروغ پاتی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ بقول وزیراعلیٰ نتیش کمار اردو سیکھ لینے سے انسان خوبصورت اور اسمارٹ لگنے لگتا ہے اور ان کی انگریزی و ہندی زبان بھی مضبوط ہوجاتی ہے اس لئے ہمیں اردو ضرور جاننا، پڑھنا اور بولنا-لکھنا چاہیے۔ موبائل پر بھی اردو میں پیغام لکھنے کی عادت ڈالنا ضروری ہے۔ہمیں پورے اعتماد اور نیک جذبے کے ساتھ اپنی مادری زبان اردو کو رواج دینا چاہیے اور احساس برتری کے ساتھ ہر جگہ اردو بولنالکھنا اور پڑھنا چاہیے۔یہ ہمارے لیے شرم نہیں بلکہ فخرکی بات ہوگی۔پیر بہوڑ تھانہ صدر محمد صبیح الحق نے اپنی مادری زبان اردو سے بے پناہ محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف اردو کلاسز کی افتتاحی تقریب میں بطور مہمان شرکت کی بلکہ طلبا وطالبات اور دانشوروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اردو بہت ہی خوبصورت اور خالص ہندوستانی زبان ہے۔ اردو جاننا ہم سب کے لیے ضروری ہے۔ اردو محبت و بھائی چارہ کی زبان ہے۔ دوسری زبانوں کے ساتھ ہمیں اردو بھی سیکھنے- سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر یعقوب اشرفی کی یہ کاوشیں قابل تعریف ہیں جس سے یقینی طور پر نئی نسل کو روشنی ملے گی اور اردو آبادی کو ترغیب ملے گی۔ ڈاکٹر آصف سلیم نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اردو کلاسز کا آغاز ایک مستحسن قدم ہے لیکن اس سے طلبا و طالبات کو زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس طرح کی کاوشیں ہوتی رہنی چاہیے اور ایسی کاوشیں کرنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی ضرور ہونی چاہیے۔ ایس ایم اشرف فرید نے کہا کہ اردو پوری دنیا میں بولی جاتی ہے اور یہ بہت ہی اچھی زبان ہے جس کو ضرور سیکھنا چاہیے۔اردو سے ہمیں محبت رکھنی چاہیے۔ واجپئی اور سشما سوراج کی تقریر بھی اردو جاننے کی وجہ سے ہی خوبصورت اور بہتر تھی جس کا اعتراف لال کرشن اڈوانی کرچکے ہیں۔ لان کی جامع مسجد کے سابق امام و خطیب مولانا ڈاکٹر پروفیسر عارف حسین نے اردو کلاسز کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آکسفیم کے ڈائرکٹر ڈاکٹر یعقوب اشرفی ایک قابل اور مشفق استاذ ہیں جن سے انہوں نے تعلیم حاصل کی ہے اور وہ جب بھی اشوک راج پتھ سے گذرتے ہیں تو اپنے استاذ کے ادب و احترام میں آکسفیم میں حاضری لگاتے ہیں۔ اسے وہ اپنے لیے بڑی سعادت مندی تصور کرتے ہیں کیونکہ استاذ کا بہت بڑا حق ہوتا ہے۔ یعقوب اشرفی نے جو تعلیم مجھے دی ہے اس کی وجہ سے وہ تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ رہے ہیں اس لیے وہ ان کی خدمات کبھی بھول نہیں سکتے۔اردو کلاسز کے معلم اور الحرا پبلک اسکول شریف کالونی کے سینئر استاذ مولانا حامد حسین ندوی نے اردو کلاسز کے آغاز پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے طلبا و طالبات کو مبارکباد پیش کی اور کہا کہ اردو زبان کی ناگفتہ بہ حالت کے باوجود مایوسی کے اس دور میں بھی طلبا وطالبات پُرجوش طریقے سے اردو سیکھنے، جاننے اور پڑھنے لکھنے کے لیے رضامند ہیں۔ یہ بہت ہی خوش آئند بات ہے اور اس سے یہ یقین ہوتا ہے کہ لوگوں کو اردو کا مستقبل بھلے ہی تاریک معلوم ہوتا ہو مگر ہماری نئی نسل کے بلند حوصلے و عزائم اور جوش و امنگ دیکھ کر ہمیں تو اردو کا مستقبل بہت ہی تابناک نظر آنے لگا ہے۔ ڈاکٹر یعقوب اشرفی کی کاوشیں یقینی طور پر قابل ستائش ہیں اور وہ اس کے لیے مبارکباد کے مستحق بھی ہیں۔تقریب کے آخر میں ڈاکٹر انوارالہدیٰ نے شکریہ کی تجویز پیش کی اور اردو کلاسز کے آغاز پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اس کے لیے ڈاکٹر یعقوب اشرفی کو مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے تفصیلی اعداد و شمار بھی پیش کئے اور یہ بتایا کہ اردو کی صورت حال آج پوری دنیا سمیت اپنے ملک اور بہار ریاست میں بہت بہتر نہیں ہے بلکہ مایوس کن ہے اس لئے ہمیں اپنی مادری زبان اردو کے فروغ اور تحفظ کے لیے بیان بازی کے بجائے ایمانداری سے عملی اقدام کرنے ہوں گے اور سنجیدہ ومخلصانہ کوشش بھی کرنی ہوگی۔