نوح میں ہوئے تشددکے واقعات کے بعد سینکڑوں مسلم تارکین وطن کا نوح-گروگرام سے آبائی مقامات کو واپسی؛ عوام میں خوف وہراس کی لہر

TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN –12 AUG      

نوح/گروگرام،12/اگست:ہریانہ کے نوح اور گروگرام میں حالیہ فرقہ وارانہ جھڑپوں کے بعد خوفزدہ ہو کر بہت سے مسلم کاریگر ہریانہ کے تشدد زدہ اضلاع سے اپنے آبائی مقامات کو واپس لوٹ رہے ہیں۔ذرائع کی مانیں تو نوح کے صنعتی علاقے اور سیکٹر-37، کھنڈسا، قاضی پور، مانیسر اور گروگرام کے آئی ایم ٹی سوہنا سے بڑے پیمانے پر مسلم کاریگر واپس لوٹ گئے ہیں۔خیال رہے کہ مسلم اکثریتی شہر نوح میں وشو ہندو پریشد نے برج منڈل یاترا نکالی تھی، جس کے دوران جلوس پر پتھراو کئے جانے کا الزام عائد کرتے ہوئے توڑپھوڑ شروع ہوگئی تھی اور پھر تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ ذرائع کے مطابق قدامت پسند ہندو تنظیموں کی قیادت میں ہجوم نے پتھراؤ کیا۔ مسلمانوں کی متعدد دکانوں کو نذر آتش کر دیا، کارکنوں کو دھمکیاں دی گئیں اور مارا پیٹا گیا، جس کے بعد مسلم تارکین وطن اپنے اپنے آبائی گاوں کے لئے واپسی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔یاد رہے کہ نوح اور گروگرام تشدد میں چھ افراد کی جانیں گئیں، جس میں ایک مسجد کے امام بھی شامل ہیں، جبکہ تشدد کی وارداتوں میں 88/افراد زخمی ہوئے۔ تشدد نے نوح، گروگرام اور سوہنا میں ٹیکسٹائل کی صنعتوں میں کام کرنے والے مسلمان تارکین وطن کارکنوں میں بڑے پیمانے پر خوف و ہراس پیدا کر دیا۔ واپسی کا سلسلہ یکم اگست کو اس وقت شروع ہوا جب کارکن اپنے معمولی سامان اور بیوی بچوں کے ساتھ بہار، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ اور مغربی بنگال میں واقع اپنے گھروں کو واپس لوٹ گئے۔انڈسٹریل ایسوسی ایشن سیکٹر-37 کے صدر کے کے گاندھی نے آئی اے این ایس کو بتایا ”گروگرام کے مسلم کاریگر تشدد اور خوف کے درمیان یہاں سے واپس لوٹ رہے ہیں۔ اگرچہ، ان کاریگروں کو گروگرام میں نشانہ نہیں بنایا گیا تھا۔ یہاں تک کہ کسی نے انہیں دھمکی بھی نہیں دی ہے کیونکہ وہ کپڑے کے کارخانوں میں کام کرتے تھے، سیلون، گوشت یا اسکریپ جیسی کھلی دکانوں مین نہیں۔ وہ خوف کی وجہ سے اپنے آبائی علاقوں کو لوٹ گئے جس سے ٹیکسٹائل انڈسٹری (کپڑے کی صنعت) کی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔گاندھی نے کہا کہ سردیوں کا موسم چند ماہ دور ہے اور یہ گرم کپڑوں کی تیاری کا بہترین وقت ہے۔ یہ تشدد ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے یقیناً ایک بڑا نقصان ثابت ہوگا۔ بہار سے تعلق رکھنے والے ایک ادھیڑ عمر کے کاریگر بابو جھا نے جو گروگرام میں ایک گارمنٹ فیکٹری میں کام کرتے تھے، کہا ”ہم جا رہے ہیں، ہم اب یہاں محفوظ نہیں ہیں۔ ہمیں پولیس پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہہم نے اپنے آجروں کو بتایا ہے کہ سکیورٹی گارڈز کی موجودگی کے باوجود، ہم اب خود کو محفوظ محسوس نہیں کر رہے ہیں۔ دریں اثنا، آئی ایم ٹی مانیسر انڈسٹریل ایسوسی ایشن نے تشدد کی مذمت کی ہے۔ آئی ایم ٹی مانیسر انڈسٹریل ایسوسی ایشن کے صدر اتل مکھی نے آئی اے این ایس کو بتایا، ”ہم کارکنوں کے مذہب پر توجہ نہیں دیتے۔ ہم نے کارکنوں کو ان کے کام کے معیار اور مہارت کے مطابق رکھا ہے اور کام کرتے وقت ہم مذہب کو نہیں دیکھتے۔ ہم نوح اور گروگرام میں تشدد کی سخت مذمت کرتے ہیں۔دونوں اضلاع میں سینکڑوں پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے اور عہدیدار باقی مزدوروں میں اعتماد پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم، تارکین وطن کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان کا اعتماد متزلزل ہو گیا ہے۔ بہار لوٹتے ہوئے رحیم خان نے کہا کہ میں ہمیشہ کے لیے اپنے خاندان کے ساتھ گروگرام چھوڑ کر جا رہی ہوں۔ کوئی بھی ہماری حفاظت نہیں کر سکتا۔ لوگ ہمیں دھمکیاں دے رہے ہیں۔ مالک مکان نے ہم سے گھر خالی کرا لیے ہیں۔”
میوات چیمبر آف کامرس ایسوسی ایشن کے صدر آر ایس کھٹانہ نے آئی اے این ایس کو بتایا ”روزکا میو میں تقریباً 30 سے ??40 ٹیکسٹائل، ڈائینگ یونٹس اور آٹو پارٹ یونٹ چل رہے ہیں لیکن حالیہ جھڑپوں کی وجہ سے ہندو اور مسلم کارکن کام پر نہیں آ رہے ہیں۔ اگرچہ انہیں کسی نے نشانہ نہیں بنایا خوف کی وجہ سے وہ اتر پردیش اور بہار میں اپنے آبائی مقامات کو لوٹ گئے ہیں۔