اقلیتی برادری کو ’’ انڈیا‘‘ پر بھروسہ ہے ؟

TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN –16 SEPT     

تریپورا، اتراکھنڈ، یوپی، مغربی بنگال اور جھارکھنڈ کی سات اسمبلی سیٹوں پر پچھلے دنوں ہوئے ضمنی انتخابات کے نتائج کو بعض سیاسی مبصرین 2024 کےلوک سبھا انتخابات سے جوڑ کر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ مذکورہ ساتوں سیٹوں کے نتائج کا اثر لوک سبھا کے انتخابات پر نہیں کے برابر پڑےگا۔ حالانکہ یہ بات سب کو معلوم ہے ’’انڈیا‘‘ اور ’’این ڈی اے‘‘ کے درمیان ہوئے اس مقابلے میں چار سیٹوں پر ’’انڈیا‘‘ اتحاد اور تین سیٹیں ’’این ڈی اے‘‘ کی جھولی میں گئی ہیں۔
اتر پردیش کے ضلع مؤ کی گھوسی اسمبلی سیٹ سماج وادی پارٹی (ایس پی) نےجیت لی ہے۔ یہاں ایس پی کے سدھاکر سنگھ نے بی جے پی کے دارا سنگھ چوہان کو چالیس ہزار سے زیادہ ووٹوں سے شکست دی ہے۔ گھوسی سیٹ دارا سنگھ چوہان کے ایس پی چھوڑنے کے بعد خالی ہوئی تھی۔یہاں کانگریس، عام آدمی پارٹی اور بائیں بازو نے ایس پی امیدوار کی حمایت میں اپنے امیدوار کھڑے نہیں کئے۔گھوسی سیٹ جیتنے کے بعد سماج وادی پارٹی کے سربراہ اور اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ ’’انڈیا‘‘ اتحاد کی جیت ہے اور آئندہ انتخابات کا نتیجہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ پوروانچل کی سیاست پر نظر رکھنے والے سینئر صحافی اجے سنگھ کہتے ہیں، یہ ’’انڈیا‘‘ اتحاد کی جیت نہیں ہے، لیکن اس میں ’’انڈیا‘‘ اتحاد کے لیے کوئی نہ کوئی اچھی خبر ضرور ہے۔اجے سنگھ کا ماننا ہے کہ گھوسی میں مختار انصاری کا اثر ہے، لیکن ایس پی میں نہ ہونے کے باوجود علاقے کے مسلمانوں نے اس پارٹی کو ووٹ دیا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اقلیتی برادری’’ انڈیا‘‘ پر بھروسہ کر رہی ہے۔سینئر صحافی پرمود جوشی کا بھی ماننا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ لوگ پارٹیاں بدلنے والوں پر بھروسہ نہیں کرتے۔
قابل ذکر ہے کہ گھوسی سیٹ بنیادی طور پر مسلم اور پسماندہ ووٹروں کی سیٹ ہے۔ یہاں مسلم، دلت، راج بھر اور چوہان ووٹروں کی بڑی تعداد ہے۔ اجے سنگھ کا خیال ہے کہ گھوسی کی ہار بنیادی طور پر اوم پرکاش راج بھر کی شکست ہے، کیونکہ یہ ان کا علاقہ ہے اور راج بھر کو شامل کرنے کے بعد بی جے پی کو لگا کہ وہ یہ سیٹ جیت لے گی۔سینئر صحافی سنجے شرما کہتے ہیں، ’’ضمنی انتخاب اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ اعلیٰ ذات کے لوگ بھی مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے مایوس ہو رہے ہیں۔ اب تک یہ مانا جاتا تھا کہ اونچی ذات بی جے پی کے ساتھ ہے۔ لیکن اس الیکشن نے واضح کر دیا ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری سب سے بڑے مدعے ہیں۔
’’انڈیا‘‘ کی حلیف پارٹی جھارکھنڈ مکتی مورچہ کی امیدوار بے بی دیوی نے جھارکھنڈ میں گریڈیہ ضلع کی ڈمری اسمبلی سیٹ جیت لی ہے۔ انہوں نے این ڈی اے کی حلیف پارٹی اے جے ایس یو کی یشودا دیوی کو سترہ ہزار سے زیادہ ووٹوں سے شکست دی ہے۔ یہ سیٹ بے بی دیوی کے شوہر اور جھارکھنڈ حکومت میں وزیر جگرناتھ مہتو کے انتقال کے بعد خالی ہوئی تھی۔ بے بی دیوی اس وقت جھارکھنڈ حکومت میں وزیر بھی ہیں۔ اسد الدین اویسی کی پارٹی اے آئی ایم آئی ایم نے بھی اس سیٹ پر اپنا امیدوار کھڑا کیا تھا۔اویسی نے ڈمری سیٹ پر انتخابی مہم بھی چلائی تھی، لیکن یہاں ان کے امیدوار کو ساڑھے تین ہزار سے بھی کم ووٹ ملے۔ چنانچہ اے آئی ایم آئی ایم کے عبدالمبین رضوی تیسرے نمبر پر رہے۔
بی جے پی نے اتراکھنڈ کی باگیشور سیٹ جیت لی۔ اس سے پہلے بھی یہ سیٹ بی جے پی کے پاس تھی۔ یہ سیٹ بی جے پی ایم ایل اے چندن رام داس کے انتقال کے بعد خالی ہوئی تھی۔ تاہم اس سیٹ پر بی جے پی کی پاروتی داس کانگریس کے بسنت کمار کو صرف 2405 ووٹوں سے شکست دینے میں کامیاب رہی ہیں۔ وہیں تریپورہ کی دھن پور اور باکسنگر اسمبلی سیٹوں پر ہوئے ضمنی انتخابات میں بی جے پی نے ہی جیت درج کی ہے۔ دھن پور سیٹ پر بی جے پی کی بندو د یبناتھ نے 18 ہزار سے زیادہ ووٹوں سے کامیابی حاصل کی ہے۔ یہاں سی پی آئی (ایم) کے کوشک چندرا دوسرے نمبر پر رہے۔ یہ سیٹ بی جے پی ایم ایل اے پرتیما بھومک کو مرکز میں وزیر بنائے جانے کے بعد خالی ہوئی تھی۔بی جے پی نے تریپورہ کی باکسن نگر سیٹ پر بھی کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ سیٹ سی پی آئی (ایم) کے ایم ایل اے شمس الحق کے انتقال کے بعد خالی ہوئی تھی۔ یہاں بی جے پی کے تفضل حسین نے سی پی آئی (ایم) کے میزان حسین کو 30 ہزار سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے شکست دی ہے۔ وہیں مغربی بنگال میں بی جے پی اپنی دھوپگوری سیٹ ہار گئی ہے۔ ترنمول کانگریس کے نرمل چندر رائے نے دھوپگوری سیٹ تقریباً چار ہزار ووٹوں سے جیتی ہے۔ یہ سیٹ بی جے پی ایم ایل اے وشنو پد رائے کی موت کے بعد خالی ہوئی تھی۔
شکست و فتح کے مذکورہ اعداد و شمار کے مطابق ضمنی انتخابات میں بی جے پی کو نہ تو کوئی فائدہ ہوا اور نہ ہی کوئی نقصان۔’’انڈیا‘‘ اور ’’این ڈی اے‘‘ کے درمیان ہوئے اس مقابلے کے نتائج گذشتہ جمعہ کو آ ئے تھے۔ چار سیٹیں ’’انڈیا‘‘ کے حق میں گئیں اور تین سیٹیں ’’این ڈی اے‘‘کے حق میں۔پہلے بھی یہی تعداد تھی ۔ سینئر صحافی پرمود جوشی کا ماننا ہے کہ گھوسی سیٹ کو چھوڑ کر فی الحال ان انتخابات کا کوئی طویل مدتی اثر نہیں ہے۔ پرمود جوشی اشارے اشارے میں شاید یہی کہنا چاہتے ہیں کہ ملک کی اقلیتی برادری کو ’’ انڈیا‘‘ پر بھروسہ ہے۔
****************