سعودی عرب میں اونٹنی کے دودھ سے ڈیری مصنوعات کی تیاری کا آغاز

TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN –11 SEPT     

ریاض ایجنسیاں،11ستمبر:کئی دہائیوں تک سعودی عرب میں اونٹوں کی معیشت ان کی خوبصورتی اور رفتار کے لیے مقابلوں تک محدود تھی، لیکن مملکت نے حال ہی میں اس شعبے کی تنظیم نو شروع کی ہے اور اس سے اربوں کی سرمایہ کاری کے لیے ایک مربوط معیشت میں بدلنے کا پلان بنایا ہے۔اونٹ اکانومی پروجیکٹ ایک سعودی کہانی ہے جس کا آغاز 2017 میں ایک خصوصی کلب کے قیام سے ہوا،اس نے اس شعبے کو منصوبوں اور سرگرمیوں میں وسعت دی اور ویٹرنری میڈیسن اور صنعتوں کے شعبے میں ترقی کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے بین الاقوامی اقتصادی فورمز کا انعقاد کیا۔ .آج ملک میں اونٹنی کے دودھ کی مصنوعات تیار کرنے والی پہلی “نوق” دکانوں کا افتتاح ہو رہا ہے۔ اس منصوبے پر کئی سالوں سے مطالعے کو مبہم رکھنے اور اس کے حوالے سے مغربی سائنسی تحقیق کو نظر انداز کیے جانے کے نتیجے میں سرمایہ کاری کرنا مشکل رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اونٹنی کا دودھ ترقی میں پیچھے رہ گیا۔پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کی ملکیت “سوانی” کمپنی کے سی ای او احمد جمال الدین نے تایا کہ خطے کے تاجروں اور سرمایہ کاروں کے لیے اونٹ فارمز کے منصوبے میں داخل ہونا معاشی طور پر “ممکن نہیں” ہے اورایک غیر یقینی مارکیٹ کی وجہ سے وہ اس میں دلچسپی نہیں لے سکتے۔گذشتہ برسوں کے دوران خطے میں اس طرح کے منصوبے شروع کرنے میں تاخیر کی وجہ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ “ایک عقیدہ ہے کہ اونٹنی کے دودھ کو تازہ دودھ کے علاوہ کسی دوسری مصنوعات سے نہیں بنایا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ کاروں نے اسے ایک ناکامی کے طور پر دیکھا ہے۔”نوق” کمپنی شقرہ میں چھ ملین کیوبک میٹر کی زرعی اراضی کی مالک ہے ( یہ علاقہ ریاض گورنری کا حصہ ہے جو دارالحکومت سے تقریباً 185 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع ہے)۔ کمپنی نی اونٹ دیری مصنوعات کا اسٹور کھولا ہے۔ ان کے فارمز میں اونٹوں کی تعداد 34 ہزار سے زائد ہوگئی ہے۔ یہ فارم مختلف اقسام کی اونٹ ڈیری مصنوعات کی مارکیٹ کی ضرورت کو پورا کرنے میں مدد گار ثابت ہوگا۔اس طرح ایک خصوصی مارکیٹ نے جنم لیا اور اس نے اپنا راستہ بنایا۔ یہ اونٹ کے دودھ سے محبت کرنے والوں کے لیے ایک منفرد موقع ہے۔ کیونکہ اونٹنی کا دودھ کچھ جگہوں اور سڑکوں پر فروخت ہوتا تھا مگر اسے زیادہ بہتر طریقے سے محفوظ کرنے کا کوئی خاص اہتمام نہیں تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ “ہم ایک نئی مارکیٹ میں ایک نئے تجربے کا آغاز کر رہے ہیں جو تازہ دودھ کے علاوہ اونٹ ڈیری کی مصنوعات کے بارے میں کچھ نہیں جانتا ہے۔ اس سے قبل کوئی کامیاب یا ناکام تجربہ نہیں ہوا ہے، لیکن “نوق” کمپنی نے “تحقیق” پر کام شروع کر دیا ہے۔ ایسے تجربات جو مالی طور پر مہنگے ہیں، لیکن مفید ہیں۔انہوں نے ہماری مدد کی ہے۔اونٹنی کے دودھ سے ہم کامیابی کے ساتھ کریم، دہی اور جیلاٹو تیار کررہے ہیں۔احمد جمال الدین نے ایک سوال کے جواب میں مزید کہا کہ اونٹنی کے دودھ سے ڈٰیری مصنوعات تیار کرنا ان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج تھا کیونکہ اونٹنی کا دودھ کسی بھی دوسرے دودھ سے اپنی ساخت میں مختلف ہوتا ہے اور گوگل پر سرچ کرنے پر ہمیں طبی ویب سائٹس پر جو کچھ نظر آیا اس کے مطابق اونٹنی کے دودھ میں تقریباً 3.1 فیصد پروٹین، 4.4 فیصد لییکٹوز، 0.79 فیصد معدنیات اور تقریباً 11.9 فیصد ٹھوس مواد پر مشتمل ہے۔ یہ اجزاء￿ گائے کے دودھ کے برعکس اونٹنی کے دودھ کو ان لوگوں کے لیے بہترین انتخاب بناتے ہیں جو لییکٹوز عدم برداشت یا دودھ کی الرجی کا شکار ہوتے ہیں، کیونکہ یہ پروٹین کا سبب نہیں بنتا ہے۔سائنسدانوں نے ایسی کوئی پروڈکٹ نہیں دیکھی ہے جس کے بارے میں تحقیق میں اس حد تک اضافہ کیا گیا ہو کہ یہ ایک “طبی معجزہ” ہے جو کینسر، آٹزم اور ذیابیطس کا علاج بن گیا ہے۔دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو اسے بہت سی بیماریوں کا سبب بناتے ہیں، کیونکہ یہ بروسیلوسس، سالمونیلوسس، کورونا، لیپٹوسپائروسس، اونٹ پوکس، پاؤں اور منہ کی بیماری، ریبیز اور دیگر بیماریوں کا سبب بنتا ہے جو اونٹوں اورانسانوں کے درمیان انتہائی متعدی ہیں۔موٹاپا کنٹرول ایسوسی ایشن “کیل” کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی رکن ڈاکٹر امل کنانہ نے عندیہ دیا کہ اس دودھ کو “سپر فوڈ” قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ یہ دوسرے دودھ کی طرح دودھ ہے، لیکن اس میں وٹامنز اور منرلز کی مقدار دوسرے کسی بھی دودھ سے زیادہ ہے۔ اس کا نقصان اسے ابالے بغیر پینے میں مضمر ہے۔ انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ اونٹنی کا دودھ بغیر اْبلے پینے سے بروسیلوسس جیسی بیماریوں اور دیگر بیماریوں کو منتقل کرنے کا ایک تیز ذریعہ ہے۔