TAASIR NEWS NETWORK UPDATED BY- S M HASSAN -26 SEPT
سیماب منظر
زندگی اس قدرپُر پیچ ہوا کرتی ہے اس کا اندازہ چند ماہ قبل سے ہونے لگا۔ بچپن سے اب تک ڈھیرخواب دیکھے! اور اس خواب کو شرمندہ کرنے کے لیے نہ جانے کتنی مشقتوں کا سامنا کیا۔ اپنی اعلیٰ تعلیم اور اس خواب کی تکمیل کے لیے اس سر زمین کو خیر آباد کرنا پڑا جہاں شفقت کی نگاہ ہم پر ہر لمحہ طواف کرتی رہتی تھی اور ممتا کے آنچل کی خوشبو سے دور جانا ایک المناک واقعہ رہا میری زندگی کا۔ خیر ہجرت لفظ ہم لڑکیوں کی قسمت میں ازل سے لکھا ہوا ہے۔
ماضی کی یادیں اس کی کسک گزرا ہوا ہر لمحہ انسان کے وجود کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے۔ ماضی کی یادوں میں خوشی اور غم دونوں سکے کے ایک پہلو کے مانند ہیں۔ میری زندگی کا سفر کچھ ایسا ہی رہا۔ اپنی زندگی کے کون سا صفحہ کو پلٹ کر دیکھوں! یادیں بھی عجب شئے ہوتی ہیں اور تنہائی میں وہ تمام منظر دھندلے ہونے کے باوجود آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگتے ہیں۔ بہت کوششوں کے باوجود کچھ چیزیں پھن پھیلائے سامنے کھڑی ہوجاتی ہیں۔بچپن سے سنتی اور سمجھتی آرہی ہوں کہ آدمی کی قسمت سے زیادہ کچھ بھی نہیں میسر ہوتا ہے۔ ٹھیک اس پر یقین کر بھی لوں تو کیا ذہن کے غبار کو نکالنا اتنا آسان ہے جو میرے دل و دماغ میں کہیں گرد بن کر بیٹھا ہوا ہے۔ خدا نے مجھے وہ تمام صیفتوں کے ساتھ اس دنیا میں بھیجا جو ایک صنف نازک کے لیے اہم ہوتا ہے۔ میں بچپن سے ہی خوش مجاز تھی اس کے علاوہ میری طبیعت میں کبھی بھی ٹھراؤ نہیں رہا خاندان کے لوگ کہتے ہیں کہ تم کبھی خاموش نہیں رہتی تھی ہر وقت باتیں کرنا تمہارا مشغلہ رہا ہے اب کیا ہوا جو چپ لگا بیٹھی ہو۔تم تو پورے گھر کو سر پر اٹھائے پھرتی تھی لیکن چند ماہ سے سکوت سی طاری ہو گئی ہے تم پر۔ تم تو ہر لمحہ کھل کھلا کر ہنسا کرتی تھی اب زمانہ ہو چکا ہے تمہیں بے باکی سے ٹھاکا لگاۓ ہوۓ، خاندان کے تمام افراد میرے اس رویہ سے پریشان رہنے لگے میں انھیں کیا بتاوں کہ زندگی نے مجھے کس مقام پر لا کھڑا کی ہے جس میں صرف اور صرف تاریکی ہی تاریکی نظر آرہی ہے۔ اس کیفیت سے قبل زندگی میں کبھی احساس ہی نہیں ہوا کہ میرا وجود بکھر جائے گا۔ اپنے آپ کو اکٹھا کرنے کی تمام کوششوں کے باوجود خود کو ہزار ٹکروں میں دیکھنے لگتی ہوں، کیوں نہ ہو ہزار ٹکڑے!خواب بھی ہزار تھے میرے شاید یہ سپنے الگ الگ مقام پر کھڑے ہوکر مجھے چڑھا رہے ہیں۔ ہر صبح اپنے خواب کو اکٹھا کر کے اسے دفنانے کی بھر پور کوشش کرتی ہوں اور یہ سلسلہ چند ماہ سے یوں ہی چلا آرہا ہے۔ کبھی کوئی خواب میرے ماضی سے نکل کر سامنے آجاتا ہے تو کبھی کوئی اور۔ اب ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ شاید میں ذہنی مریضہ تو نہیں بن چکی ہوں۔ کہتے ہیں کہ زندگی کے سفر میں کوئی ایک لمحہ انسانی دلوں و دماغ کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ پچھلے چند دنوں سے مجھ میں بھی تبدیلی آنے لگی۔ بچپن سے اب تک جس انسان کے تعلق سے ایک پل بھی نہیں سوچا بلکہ کبھی خیال تک نہ آیا۔ اب وہ میری روح میں اترنے کی کوشش کر رہا ہے اور میں ہر دفعہ خود کو اس سے دور لے جانے کی کوشش کرتی ہوں۔ اس کی بھی غلطی نہیں ہے میں ہی خود اس کے رابطے میں آئی۔ اور یہ سلسلہ اب تک منقطع نہ ہو سکا۔
میں نے اپنی زندگی میں ایسا شخص نہیں دیکھا وہ میرے ہر احساس کی ترجمانی عام فہم سہل انداز میں کر دیتا ہے کہ میں کبھی کبھی حیران و پریشان ہو جاتی ہوں کہ کتنے میرے دوست کلاس ساتھی اور میرے قریب رہنے والے لوگ میرے جذبات کو نہیں سمجھ سکے لیکن جس انسان کو تیرہ چودہ سال پہلے دیکھا تھا صرف!شاید کبھی ایک دو الفاظ کی گفتگو بھی نہ ہوئی ہو اور وہ میرے ریزہ ریزہ ہونے پر مجھے یقین دلتا ہے کہ میں تمہیں تمہارے نام کی صیفتوں کے مانند اکٹھا کرنا چاہتا ہوں۔ وہ مجھے انمول سمجھتا ہے اور میں خود کو اب اس لائق نہیں سمجھتی ہوں کیونکہ میری زندگی ایک ایسی راہ پر کھڑی ہے کہ ہزار خواب چکنا چور ہو چکے ہیں۔ وہ انسان مجھے ہر پل زندگی کا حوصلہ دیتا ہے اور میں بھی کہتی ہوں کہ اب منفی خیالات کو ذہن میں بالکل نہیں آنے دوں گی۔ جب تک اس انسان سے گفتگو کرتی ہوں تو زندگی کی تاریکی سے نکل کر روشنی کی طرف آنے لگتی ہوں۔ ہے بھی وہ انسان کمال کا اس کے الفاظ میری روح میں اترنے کی کوشش خوب کرتا ہے اور میں صرف اس لیے اجازت نہیں دیتی کہ میرے ذہن میں ایک وسوسہ بنا ہوا ہے کہ جس جگہ کو میں ہمیشہ سے انکار کی وہاں سے اس کا تعلق ہے۔ پھر میں سوچتی ہوں کہ زماںومکاں سے ہمیں کیا سروکار ،یہ انسان تو الگ ہی خیال رکھتا ہے۔ وہ مجھے چھوٹا پودھا، کسی باغ کا پودھا سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تمہیں پودھے کی طرح سینچنا چاہتا ہوں جس طرح سے ایک باپ اپنی بیٹی کو سینچتا ہے اسی طرح والد کے بعد لڑکیوں کی قسمت میں اس کا ہم سفر بھی ایک مالی کی طرح ہونا چاہیے جسے وہ سینچ سکے اور اسے مضبوط اور پھل دار درخت جیسا بنا سکے۔خدا نے بھی عجیب صفت عطا کی ہے لڑکیوں کے اندر کہ وہ ہمیشہ خواب دیکھتی ہے کہ اس کا ہم سفر بھی اس کے والد کے خیالات سے ہم آہنگ ہو۔ میں اپنے والد سے اسکا موازنہ کرتی ہوں تو مجھے احساس ہونے لگتا ہے کہ سو فیصد میرے پاپا کا ہم خیال ہے۔ جس طرح میری تمام الجھنوں، مشکلوں، دکھوں، دردوں کو میرے پاپا حل کرتے ہیں وہ بھی مجھے ہوبہو دلاسا دیا کرتا ہے کہ میں ہوں تمہارے ساتھ بلکہ وہ تو وقفے وقفے سے میری اجازت چاہتا ہے کہ میں اسے قبول کر لوں تاکہ میں ہر پریشانی سے آزاد ہو جاوں۔
وہ تو میری روح میں اتر جانا چاہتا ہے وہ میرے جذبات و احساسات کو بھی سمجھتا ہے لیکن کہتے ہیں کہ اس کائنات میں ایک ایسی شئے ہے جسے شاید ہی دنیا کی کوئی مخلوق سمجھ سکے اور وہ شئے ہے عورت۔ میں بھی سینے میں ایک عورت کا دل رکھتی ہوں میری روح کا ایک ایسا گوشہ ہے جہاں تک رسائی ناممکن ہے کم سے کم موجودہ وقت میں، مستقبل کا معلوم نہیں کہ وہ میری روح کے اس خانہ تک پہنچ سکتا ہے بھی یا نہیں۔ اسی مستقبل کا خواب لیکر چند سال قبل سفر پر نکلی تھی اب حال میں پھر سے مستقبل کا خواب دیکھنے لگی ہوں۔ شاید ماضی کے سفر میں راستے ڈھنگ کے نہ تھے،کیونکہ اب احساس ہوتا ہے کہ کاش خضر ِ راہ زندگی کو سمجھانے والا ہوتا تو بھٹکنے سے بچ جاتی۔
میں جس مستقبل کا خواب بنی تھی آج وہ کرچی کرچی ہو چکا۔ میں سوچتی ہوں کہ خدا کے کارخانے سے تھوڑی سی خوشی مانگی تھی وہ بھی اتنے مدت بعد مکمل نہ ہو سکی۔ میں اپنے لیے بھی نہیں مانگی تھی بس جس کی شفقت بھری نگاہوں سے میں خود کو دنیا کی اعلیٰ ترین انسان سمجھتی تھی اور میری کامیابی سے اس محنت کش باپ کی آنکھوں میں چمک آجاتی! یہی تو چاہتی تھی۔ میں کیا کر سکتی ہوں کئی دفعہ تو منزل کے بہت قریب پہنچ جاتی ہوں اس کےباوجود زندگی پھر سے تاریک نظر آنے لگتی ہے۔
مجھ سے زیادہ خواب دیکھنے والا میرا باپ ہے!اب وہ خاموش خاموش رہنے لگا میں اسکے سامنے ہوتی ہوں تو وہ پہلے ہی کی طرح مجھے مسکرا کر حوصلہ دیتا ہے کہ بیٹا کیوں پریشان ہو خدا کی مرضی یہی ہے کہ تمہاری اتنے دنوں کی محنت ابھی کام نہیں آئی ہے تو کیا ہوا مستقبل میں دیکھنا یہی قربانی تمہارے قدموں میں آکر رہے گی۔ تعلیم کبھی رائگاں نہیں ہوتی ہے۔ میں نے اپنا فرض بہ خوبی پورا کیا اور تم بھی تو میری امیدوں پر کھڑی رہی بس قسمت نے تھوڑا انتظار کرنے کے لیے کہا ہے اور ہمیں اس وقت کا خوش دلی سے انتظار کرنا بھی چاہیے خدا کی مصلحت یہی ہے۔ میں اپنے پاپا کی ہر بات تسلیم کرتی ہوں وہ میری زندگی کا حوصلہ ہے ۔ یہی حوصلہ میرے اندر بچپن سے اب تک مضبوطی کے ساتھ کھڑا رہا اور میں بھی یہی سوچتی ہوں کہ انسان ہوں تو فطرتاً کبھی کبھی کمزور پڑ جاتی ہوں! لیکن اب بالکل بھی نہیں خود کو تنہا و کمزور انسان سمجھنا ہے ۔اس لیے میں ایک عزم کے ساتھ نئے سفر پر نکلنا چاہتی ہوں اور ایک نہ ایک دن خود کےوجود کو اکٹھا کرتے ہوئے کامیابی کی منزل تک پہنچوں گی اور اسی حوصلے کے ساتھ میں اپنے ریزہ ریزہ شخصیت کو سمٹتے ہوئے اپنے خواب اور حقیقت کے سفر پر نکل پڑتی ہوں۔
*********