خواب چکنا چور بھی ہو سکتا ہے

TAASIR NEWS NETWORK- SYED M HASSAN -08 SEPT     

آخر بہار میں وہی شروع ہوگیا ہے، جس کا اندازہ پہلے سے تھا۔لوک سبھا انتخابات سے پہلے ریاست میں اپوزیشن اتحاد ’’انڈیا‘‘ سے وابستہ تیسرے اور چوتھے نمبر کی جماعتوں نے سیٹوں کے معاملے میں دباؤ بنانا شروع کر دیا ہے۔بہار میں پہلے مالے نے 5 سے زیادہ سیٹوں پر اپنی دعویداری ٹھوکی ہے، اس کے بعد کانگریس بھی میدان میں اتر گئی ہے ۔کانگریس نے 9 سیٹوں پر اپنا دعویٰ پیش کیا ہے۔ کانگریس کے ریاستی صدر اکھلیش سنگھ جمعہ کو پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں کانگریس نے بہار میں 9 سیٹوں پر مقابلہ کیا تھا۔ اس بار بھی پارٹی 9 سیٹوں کا مطالبہ کرے گی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ بہار میں کانگریس پارٹی پہلے سے زیادہ مضبوط ہوئی ہے۔وہ دبی زبان میں آرجےڈی اور جے ڈی یو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ کسی کو یہ نہیں محسوس ہونا چاہئے کہ  ہم سیٹوں کا مطالبہ نہیں کریں گے۔ ممبئی میں ایک کمیٹی بنائی گئی ہے، جو لوک سبھا انتخابات میں پارٹیوں کو دی جانے والی سیٹوں کے بارے میں فیصلہ کرے گی۔ایسے میںکسی کو یہ محسوس نہیں ہونا چاہیے کہ ہم سیٹوں کے حوالے سے اپنے مطالبات نہیں کریں گے۔ان کا دعویداری بھرا ایک سوال یہ بھی تھا کہ اگر کانگریس کو میرے دور میں مناسب نمائندگی نہیں ملی تو کس کے دور میں ملے گی؟ جبکہ کانگریس پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گئی ہے۔
اِدھر ایک طرف، کانگریس 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں پہلے سے زیادہ سیٹوں کا دعویٰ کر رہی ہے، لیکن دوسری طرف نتیش کی کابینہ کی توسیع رکی ہوئی ہے۔ اس توسیع میں کانگریس مسلسل دو نئے وزراء کی تقرری کا دعویٰ کر رہی ہے۔ اتنا ہی نہیں اکھلیش پرساد سنگھ اب تک بہار کانگریس کمیٹی کی تشکیل آج تک نہیں کر پائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بھادو کے بعد کمیٹی بنائی جائے گی۔اکھلیش سنگھ پریس کانفرنس کریں اور مرکزی حکومت پر حملہ نہیں کریں ، ایسا کبھی نہیں ہو سکتا ہے۔انھوں نے مرکزی حکومت پر حملہ کرتے ہوئے مہنگائی کا مسئلہ اٹھایا۔ پٹرول اور ڈیزل پر انتخابی قلت پیدا ہو نے کی بات کہی۔یہ بھی کہا کہ سات سالوں میں عام لوگوں کی آمدنی میں 36 فیصد اضافہ ہوا لیکن حکومت نے پٹرول پر 220 فیصد اور ڈیزل پر 600 فیصد زیادہ ٹیکس وصول کیا۔ حکومت عوام کے پیسوں سے اپنی جیبیں بھر رہی ہے۔ روزمرہ کی چیزوں کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ اس مہنگائی سے اڈانی اورامبانی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔یعنی دو آدمی عوام کے لیے فیصلے لیتے ہیں اور دو آدمی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ نہ تو اڈانی راہل گاندھی کے سوال کا جواب دے رہے ہیں اور نہ نریندر مودی۔ حکومت جی ۔20 کے نام پر اپنی تشہیر کر رہی ہے۔ ترقی کی باتیں کھوکھلی ہیں۔ پہلی بار حکومت کسی اپوزیشن لیڈر سے بات کیے بغیر خصوصی اجلاس بلا رہی ہے۔ سیشن کس لیے ہے؟  یہ بھی واضح نہیں ہے۔ حکومت عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے سب کچھ کر رہی ہے، لیکن بی جے پی کی رخصتی اب یقینی ہے۔اکھلیش سنگھ کی پریس کانفرنس کے میں کہی گئی تمام باتوں کے حوالے سے سیاسی حلقوں میں یہی چرچا عام ہے کہ ان کی پریس کانفرنس کا اصل مقصد بہار کی 40 لوک سبھا سیٹوں میں سے جہاں تک ہوسکے زیادہ سیٹوں کا مطالبہ تھا اور سیٹوں کی شیئرنگ کے فیصلہ کاروں کو یہ احساس دلانا تھا کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ ہمیں جتنی سیٹیں چاہیں دیدیں اور کانگریس خاموش رہے۔ کانفرنس میں اٹھائی گئی باقی باتیںضمناََ تھیں۔ اکھلیش سنگھ تھے تو مرکزی حکومت پر نشانہ تو لگانا ہی تھا۔
    کانگریس کے بعد نمبر آتا ہے مالے کا۔ مالے نے آر جے ڈی سپریمو لالو پرساد یادو کو اپنی سیٹوں کے دعوے سے متعلق ایک خط پیش کیا ہے۔ کتنی سیٹوں کے لئے دعویداری کی گئی ہے، اس کا خلاصہ مالے رہنماؤں نے نہیں کیا ہے، لیکن جانکاری مل رہی ہے کہ کم سے کم پانچ سیٹوں پر مالے کی دعویداری ہے۔دیکھا جا رہا ہے کہ جیسے جیسے الیکشن کا وقت قریب آ رہا ہے، مالے لیڈر بھی اب اپنی زمینی صورتحال کے مدنظر سیٹوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے مالے لیڈر 10 سے زیادہ سیٹوں پر اپنی طاقت کی بات کر رہے تھے۔ اگر ہم گزشتہ لوک سبھا انتخابات پر نظر ڈالیں تو بہار میں مالے کو چار سیٹیں ملی تھیں۔ آرہ سے راجو یادو، سیوان سے امرناتھ یادو، کراکٹ سے راجہ رام سنگھ، جہان آباد سے کنتی دیوی نے الیکشن لڑا تھا۔حالانکہ ایک بھی سیٹ پر پارٹی کو کامیابی نہیں ملی تھی۔لیکن اس بار مالے لیڈر اس بات کو لے کر پرجوش ہیں کیوں کہ اسمبلی انتخابات میں ان کی کارکردگی کافی بہتر رہی۔ بڑی بات یہ ہے کہ آر جے ڈی کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ کانگریس کو زیادہ سیٹیں دینے کے بجائے اگر مالے کو زیادہ سیٹیں دی جاتیں تو بہار میں عظیم اتحاد کی طاقت زیادہ ہوتی اور تیجسوی وزیر اعلیٰ بن جاتے۔
ان ساری باتوں سے یہی اندازہ لگ رہا ہے کہ ’’انڈیا ‘‘ سے وابستہ بہار کی جماعتوں میں سیٹوں کے معاملے میں جلدی مفاہمت کی گنجائش کم ہے۔کانگریس کے بہاری رہنما زیادہ سے زیادہ سیٹ حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے ، لیکن بہار میںکانگریس کی زمینی طاقت ابھی اتنی نہیں ہےکہ اس پر زیادہ بھروسہ کیا جا سکے۔ چنانچہ’’انڈیا‘‘ سے وابستہ تمام سیاسی پارٹیوں کے رہنما اگر قربانی کے جذبے سے فیصلہ نہیں لیں گے اور صرف اپنے اپنے فائدے کی بات سوچیں گے توان کا خواب چکنا چور بھی ہو سکتا ہے۔
*******************