TAASIR NEWS NETWORK UPDATED BY- S M HASSAN -24 SEPT
بیجنگ،24ستمبر: وہ لوگ جو چینی صدر شی جن پنگ کے قابل اعتماد اور پسندیدہ افراد میں شمار ہوتے تھے وہ اب رفتہ رفتہ غائب ہوتے نظر آتے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں کئی اعلیٰ عہدوں پر فائز چینی حکام کی گمشدگیوں نے اس بارے میں شدید شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں کہ کیا چینی صدر خصوصاً فوج سے منسلک افراد کا ’صفایا‘ کر رہے ہیں۔اس کی تازہ ترین مثال چینی وزیر دفاع لی شانگفو کی ہے جو گزشتہ چند ہفتوں سے منظرعام سے غائب ہیں۔ اگرچہ ان کی غیر موجودگی کو پہلے تو محسوس نہیں کیا گیا تاہم جب ایک اعلیٰ امریکی سفارت کار نے ان کی غیر موجودگی کی نشاندہی کی گئی تو پھر اس احساس نے شدت اختیار کر لی۔خبر رساں ادارے رؤئٹرز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ جنرل لی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کے لیے ہتھیاروں کی خریداری کی نگرانی کرتے تھے اور ان سے فوجی سازوسامان کی خریداری پر تفتیش کی جا رہی تھی۔ان کا ’غائب ہونا‘ راکٹ فورسز کے ان دو اعلیٰ عہدیداروں کو ہٹائے جانے کے کچھ عرصہ بعد سامنے آیا۔ ان عہدے داروں میں سے ایک کا تعلق جوہری میزائلوں کو کنٹرول کرنے والے فوجی دستے سے جبکہ دوسرے ایک فوجی عدالت کے جج تھے۔اب تازہ ترین افواہیں یہ گردش کر رہی ہیں کہ چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کے سنٹرل ملٹری کمیشن (جو کہ مسلح افواج کو کنٹرول کرتے ہیں) کے کچھ کیڈرز بھی زیر تفتیش ہیں۔’صحت کی وجوہات‘ کے علاوہ، ان کو ہٹائے جانے کی کوئی سرکاری وضاحت نہیں دی گئی اور معلومات کے اسی فقدان کے باعث قیاس آرائیاں بھی عروج پر ہیں۔ان تمام معاملات میں بنیادی نظریہ یہ ہے کہ حکام پی ایل اے میں بدعنوانی کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہے ہیں۔ ان حالات میں فوج کو انتہائی چوکس کر دیا گیا ہے۔جولائی میں صدر شی جن پنگ کی جانب سے ایک غیر معمولی اعلان کیا گیا جس میں عوام سے پچھلے پانچ سالوں میں ہونے والی بدعنوانی کے بارے میں معلومات طلب کی گئیں۔ بی بی سی مانیٹرنگ کے مطابق صدر شی جن پنگ نے ملک بھر میں معائنوں کا گویا ایک نیا دور شروع کر دیا ہے اور اپریل سے اب تک پانچ فوجی اڈوں کا دورہ کر چکے ہیں۔سنگاپور کی نانیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی کے ایک ریسرچ فیلو جیمزچار جو سی سی پی اور فوج کے درمیان تعلقات کا مطالعہ کرتے ہیں کا کہنا ہے کہ چین میں ایک طویل عرصے سے فوج میں بدعنوانی ایک شدید مسئلہ رہا ہے خاص طور پر جب سے چین نے 1970 کی دہائی میں اپنی معیشت کو آزاد کرنا شروع کیا تھا۔جیمزچار کا کہنا ہے کہ ’ہر سال چین فوج پر10 کھرب یوآن(چینی کرنسی) سے زیادہ خرچ کرتا ہے جس میں کچھ خریداری میں صرف ہوتی ہے جسے قومی سلامتی کی وجوہات کی بناء پر مکمل طور پر ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔ شفافیت کا یہ فقدان چین کے یک جماعتی مرکزی نظام کی وجہ سے مزید بڑھ گیا ہے۔‘ڈاکٹر چار کے مطابق جس طرح کی عوامی جانچ پڑتال دوسرے ممالک میں افواج کی، کی جاتی ہے اس کے برعکس چین کی مسلح افواج کی نگرانی خصوصی طور پر سی سی پی کرتی ہے۔اگرچہ صدرشی نے مسلح افواج کے اندر بدعنوانی کو ختم کرنے اور اس کی ساکھ کو کسی حد تک بحال کرنے میں کچھ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ڈاکٹر چار نے مزید کہا ’بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا اگر ناممکن نہیں تو ایک بہت بڑا اقدام ہے‘ کیونکہ اس کے لیے ’نظام کو از سر نو مرتب کرنے‘ کی ضرورت ہو گی اور مجھے خدشہ ہے کہ اس طرح آمرانہ ریاست کا تسلط برقرار رہے گا۔‘