صورتحال کانگریس پر بھاری پڑ سکتی ہے

تاثیر،۱۶  اکتوبر۲۰۲۳:- ایس -ایم- حسن

کانگریس نے مدھیہ پردیش میں اسمبلی انتخابات کے لیے اپنے امیدواروں کی پہلی فہرست جاری کر دی ہے۔ پہلی فہرست میں 144 امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا گیا ہے۔ پہلی فہرست جاری ہونے کے بعد سےہی کانگریس میں اٹھی بغاوت کی آوازوں کی بازگشت دہلی تک سنائی دینے لگی ہے۔ کہیں کوئی لیڈر پارٹی چھوڑ رہا ہے تو کہیں کسی لیڈر کے خلاف احتجاج ہو نے لگاہے۔ ایسا ہی ایک معاملہ اندور اسمبلی حلقہ 04 میں سامنے آیا ہے۔ یہاں سے کانگریس لیڈر راجہ مندھوانی کے خلاف جم کر احتجاج شروع ہو گیا ہے۔
دراصل کانگریس نے راجہ مندھوانی کو اندور اسمبلی حلقہ نمبر 04 سے اپنا امیدوار قرار دیا ہے۔ اس کے خلاف احتجاج میں اکشے بم کے حامیوں کی بڑی تعداد ٹکٹ حاصل کرنے کی امید میں گاندھی بھون میں واقع کانگریس دفتر پہنچ گئی۔ یہاں پہنچنے کے بعد انہوں نے احتجاج کیا اور سڑک بلاک کردی اور راجہ مندھوانی کا پتلا جلایا۔ احتجاج کے دوران کانگریس کارکن ریا میرچندانی نے صحافیوں کو بتایا کہ راجہ مندھوانی ایک غیر فعال لیڈر ہیں، انہیں لیڈر کہنا غلط ہوگا۔ اسے راتوں رات پیراشوٹ انٹری دے دی گئی۔ مندھوانی کو کوئی نہیں جانتا ہے۔  ممکن ہے پارٹی کے سینئر لیڈروں کو اس بارے میں مطلع نہیں کیا گیا ہو۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ کانگریس پارٹی ایسے کارکن کو پارٹی امیدوار بنائے جو کئی سالوں سے علاقے میں کام کر رہا ہے۔احتجاج کی گونج پارٹی اعلیٰ کمان تک بھی پہنچ گئی ہے۔
  اِدھر پنڈھاری ناتھ تھانے کے انچارج انیل کمار کے حوالےسے بات سامنے آ رہی ہے کہ ٹکٹ تقسیم کے طریقۂ کار کے خلاف کانگریس کارکنوں نے کانگریس دفتر کے باہر کل جم کر مظاہرہ کیا تھا۔مظاہرہ کو بڑی مشکل سے ہٹا تو دیا گیا ہے، لیکن یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ  شہر میں ماڈل ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر مقدمہ درج کیا جائے گا۔ مظاہرے کے دوران ایک کارکن کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔  اس احتجاج کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ انتخابات قریب آنے کے باوجود کانگریس میں اندرونی خلفشار کم نہیں ہوا ہے۔ ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آنے لگی ہے۔ سیاسی مبصرین کا یہ ماننا  ہے کہ پارٹی سے ناراض لوگوں کی تعداد میں اضافے کے حوالے سے باتیں تو ہو ہی رہی ہیں، اس کے علاوہ کچھ ایسے لوگ بھی بے حد مایوس ہیں، جنھیں یہ امید دلا کر بی جے پی سے کانگریس میں لایا گیا تھا کہ وہاں سے ٹکٹ مل جائے گا، لیکن ٹکٹ تقسیم کے مرحلے میں انھیں بھی نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ایسے لوگوں میں کولارس کے ایم ایل اے ویریندر رگھوونشی کا نام سر فہرست ہے۔ان کا سوال ہے کہ بی جے پی چھوڑ کر کانگریس میں شامل ہونے کے بعد اب کیا کریں گے؟
  قابل ذکر ہے کہ گزشتہ انتخابات میں بی جے پی کے ٹکٹ پر کولارس سے ایم ایل اے بنے وریندر رگھوونشی نے بھی انتخابات سے پہلے کانگریس میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ وہ کانگریس کی جانب سے شیو پوری سیٹ سے الیکشن لڑ نا چاہتے تھے، لیکن کانگریس نے 144 امیدواروں کی فہرست میں ان کی جگہ سابق وزیر کے پی سنگھ کوشیو پوری کو میدان میں اتار نے کا فیصلہ لیا ہے۔ ویریندر رگھوونشی کو شیو پوری سے ٹکٹ نہیں ملا۔ٹکٹ کینسل ہونے کے بعد ایم ایل اے ویریندر رگھوونشی نے سوشل میڈیا پر ایک جذباتی ویڈیو جاری کیا ہے۔ اس ویڈیو میں انہوں نے پارٹی اعلیٰ کمان سے اس طرف توجہ دینے کو کہا ہے۔ وریندر رگھوونشی جیسے مایوس ٹکٹ امیدواروں کے حامیوں کا کہنا ہے کہ مدھیہ پردیش میں الیکشن کے اعلان کے وقت سے ہی کھیل شروع ہو چکا تھا، اس وجہ سے پارٹی سے منحرف لوگوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
سوشل میڈیا پر جاری ویڈیو کے دوران وریندر رگھونشی نے کہا ہے کہ وہ ایک جال میں پھنس چکے ہیں۔ اپنے حامیوں اور رگھوونشی برادری کے ارکان سے اپیل کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ مجھے آپ کے پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔ میں آپ لوگو کو جواب دینے کے قابل نہیں ہوں۔ میں آپ کے پیار اور محبت کا مشکور ہوں۔ صبر کو برقرار رکھیں۔ اس ویڈیو میں انہوں نے کہا ہے کہ میں ہمیشہ عوام کی خدمت کے لیے لڑتا رہا ہوں، لیکن آج میں خود برائی کے جال میں پھنس گیا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ اعلیٰ قیادت نوٹس لے گی اور مجھے خدمت کا موقع دے گی۔ مجموعی طور پر انہوں نے براہ راست الفاظ میں زیادہ کچھ نہیں کہا لیکن ٹکٹ نہ ملنے پر ان کی ناراضگی ان کے بیان میں صاف نظر آتی ہے۔
  ویڈیو میںانہوں نے کہا کہ وہ ایک شیطانی چکر میں پھنس گئے ہیں۔قابل ذکر ہے کہ انھوں نے کچھ دن پہلے بی جے پی سے استعفیٰ دے کر کانگریس میں شمولیت اختیار کی تھی۔ کانگریس میں شامل ہونے کے بعد انہوں نے کولارس کے بجائے شیو پوری اسمبلی سیٹ سے ٹکٹ کا دعویٰ کیا تھا، لیکن انھیں مایاسی ہوتھ لگی ہے۔ اب یہ قیاس آرائیاں ہورہی ہیں کہ بی جے پی مرکزی وزیر جیوترادتیہ سندھیا کو اس اسمبلی سیٹ سے اتار سکتی ہے۔ کیوں کہ سینئر بی جے پی لیڈر اور موجودہ ایم ایل اے یشودھرا راجے سندھیا نے اپنی صحت کی وجوہات بتا کر الیکشن لڑنے سے انکار کر دیا ہے۔یہ طے ہے کہ مدھیہ پردیش میں اس طرح کے بی جے پی کے کئی مضبوط قلعے ہیں ، جنھیں توڑ پانا کانگریس کے لئے آسان نہیں ہے، لیکن امیدواروں کی پہلی فہرست جاری ہونے کے بعد ہی جب احتجاج اور انحراف کی صورتحال یہ ہے تو پھر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چناوی میدان کا کیا عالم ہوگا۔سیاسی مبصرین کے مطابق یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کانگریس کو اپنے ہی لوگوں کو منانے اور ان سے نپٹنے میں اپنی توانائی گنوانی پڑ جائے۔ظاہر ہےیہ صورتحال کانگریس پر بھاری بھی پڑ سکتی ہے۔
**********