لوبان اور کندر۔۔ دینی وسائنسی جائزہ

تاثیر،۱۶  اکتوبر۲۰۲۳:- ایس -ایم- حسن

 

ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی

زمانہ قدیم سے ہی دنیا کے ہر علاقے اور ہر تہذیب میں خوشبودار اشیا ء کی بڑی قدر کی جاتی رہی ہے خاص طور سے وہ اشیاء جو خوشبو کے ساتھ ساتھ دھونی (نجور) کا بھی کام دیتی ہوں کیونکہ ایسی چیزوں کو مختلف رسومات او رعبادت گاہوں میں استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مصری تہذیب میں تو یہ تک تصور کیا جاتا تھا کہ دھونی کی مدد سے انسان کے مردہ جسم سے نکلتی ہوئی روح آسمان کی جانب پروز کرجاتی ہے صرف یہی نہیں بلکہ دھونی بنانے کی رسم کو ایک مذہبی شکل دے دی گئی تھی چنانچہ ایک خاص اور قیمتی دھونی بنام ’’کونی‘‘ کو بنانا ایک زبردست مذہبی کام تھا۔ کونی میں سولہ اقسام کی اشیاء کو مختلف مقدار میں ملایا جاتا تھا جن میں لوبان، مرمکی، شہد، شراب، دار چینی کی شمولیت لازمی تھی۔ اس دھونی کی بابت مشہور تھا کہ اس سے متاثر لوگ دماغی سکون محسوس کرتے تھے اور پھر رات کو بہترین خواب دیکھتے تھے۔ مصر کے فرعونی دور میں عوام اور خواص پر لازم تھا کہ جب وہ دربا رفرعون میں حاضر ہوں تو کونی کی دھونی دیتے ہوئے کیونکہ فرعون سرزمین مصر میں خدا کے نائب ہونے کا دعویٰ کرتے تھے اور بعد میں تو خدائی کا دعویٰ بھی کربیٹھے تھے۔ کونی کے اجزاء فرعون کے خاندان کے لوگوں کی ممی MUMMIES کو محفوظ (EMBALM) کرنے کیلئے بھی کثرت سے استعمال میں لائے جاتے تھے۔
قوم یہود میں بھی بغیر لوبان کی دھونی کے عبادت کو مکمل تصور نہ کیا جاتا تھا۔ توریت کے باب جریمیا (JEREMIA) میں بنی اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’جب تمہارے اعمال سہی نہیں ہیں تو ہیکلوں میں سب کا لوبان ہمارے سامنے کیوں پیش کرتے ہو۔‘‘
حضرت عیسیٰ سے قبل کے دور میں روم اور یونان کی عبادت گاہوں میں خوشبو دار لکڑیوں کا جلانا لازمی مذہبی فریضہ تھا کیونکہ لوبان سے غالباً ان دنوں یونانی خاص واقفیت نہ رکھتے تھے۔
جنوبی امریکہ کے قدیم تھذیبی دور میں تمباکو کی پتیاں دھونی کا اصل ذریعہ تھیں اس دھونی کے دوران کرامات اور جادو کا مظاہرہ بھی کیا جاتا تھا۔
چین میں پرانے وقتوں میں باور کیا جاتا تھا کہ ہر دعا جو عبادت گاہوں میں مانگی جاتی ہے اس کا آسمان تک لے جانے کا ذریعہ دھونی کا بل کھاتا ہوا دھوں ہوتا ہے۔ لہٰذا اس دھوئیں کو زیادہ گھنا اور گہرا کرنے کی غرض سے صندل کی لکڑی کو جانوروں کے فضلہ کے ساتھ ملاکر جلایا جاتا تھا۔
ہمالیائی علاقوں میں دھونی کا اصل ذریہ بعض درختوں کی لکڑیاں ہی ہوتی تھیں جبکہ جنوبی ہندوستان کی عبادت گاہوں میں کندریاسلئی گوند کا جلانا عام تھا۔ بعض رسوم میں سال درخت سے نکلی ہوئی رال بھی استعمال میں لائی جاتی تھی۔
انڈونیشیا اورملایا میں عود کی دھونی دینے کا رواج تھا خاص طور سے ان موقعوں پر جب رسوم کے ساتھ جادو کا مظاہرہ بھی مقصود ہو۔
قدیم ایرانی تہذیب میں بھی نجورات کی بڑی اہمیت تھی۔ زردشت قوم کے لوگوں میں عنبر، می سائیلا، بلساں اور لوبان کی دھونی رسومات کا اہم جز تھیں۔
عرب سرزمین میں پرانے وقتوں سے ہی نجور کے طور پر لوبان کو دوسری اشیاء دھونی پر فوقیت دی جاتی رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت سلیمان کے ہیکل خوشبودار سدر (CEDRA) کی لکڑی سے بنائے گئے تھے، جن میں مسلسل وقت لوبان سلگتا رہتا تھا۔ واقعہ مشور ہے کہ 950ق م سلطنت سبا کی شہزادی بلقیس جب بڑے تزک واحتشام کے ساتھ حضرت سلیمان کے دربار (یروشلم) میں حاضر ہوئیں تو اپنے ہمراہ اونٹوں پر لدے ہیرے جواہرات کے علاوہ جو سب سے قیمتی تحفہ ساتھ لائیں وہ لوبان کی ایک بڑی مقدار تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ لوبان پیدا کرنے والے تجار کی یمن میں اتنی بھرمار تھی کہ سلطنت کا بیشتر علاقہ ان درختوں اور ان سے رستے ہوئے گوند کی خوشبو سے معطر رہتا تھا اور جنت کا سماں پیش کرتا تھا۔ ایک یونانی مورخ اگاترشیڈس (145ق م) لکھتا ہے کہ ’’جوخوشبو یمن اور حضرتموت کے گنجان جنگلوں سے آتی ہے وہ جنت کی خوشبو سے کم نہیں، جو لوگ اس علاقہ کے ساحل سے کشتیوں (جہازوں) پر گزرتے ہیں وہ بھی اس ہوا سے محظوظ ہوتے ہیں جو ان جنگلات کو چھوکر آتی ہے۔‘‘ ایک دوسرا مورخ آرتی میڈدرس (100ق م) بیان کرتا ہے کہ یمن کا شہر مارب ایک پر اشجار علاقہ ہے، جہاں میوئوں کی کثرت ہے اور لوگ سست اور ناکارہ ہوگئے ہیں او رخوشبودار درختوں کی چھائوں میں پڑے رہتے ہیں۔‘‘ تھیوفراسٹس (312ق م) نے بھ یلوبان کو سبا کی خاص پیداوار بتایا ہے۔ پلائنی (79عیسوی) نے قدرے تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ’’سبا کے ایک حصہ کا نام حضرموت ہے جس کے خاص شہر میں متعدد ہیکل ہیں۔ پورے حضرموت سے نجورات (لوبان وغیرہ) جمع کرکے ان ہیکلوں میں لائے جاتے ہیں اور ان کا دسواں حصہ وہاں بھینٹ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ہی یہ نجورات عرب اور مصر کے علاقوں میں بغرض تجارت لے جائے جاسکتے ہیں۔ پلائنی نے یہ بھی لکھا ہے کہ لوبان کو جمع کرنے کیلئے جو لوگ جنگلوں میں جاتے تھے ان کے لئے یہ شرط تھی کہ وہ پاک وصاف ہوں اور وہاں جانے سے قبل انہوں نے نہ کسی مردہ کو ہاتھ لگایا ہو۔ ہیروڈوٹس (287ق م) نے یمن کے لوبان پیدا کرنے والے درختوں کی بابت تحریر کیا ہے کہ درختوں پر اڑنے والے سانپ لپٹے رہتے ہیں جو گویا کہ ان کی حفاظت کرتے ہیں اور دھونی دینے پر ہی وہاں سے ہٹتے ہیں۔ مارکوپولو نے اپنے سفرنامہ میں لکھا ہے کہ عدن بندرگاہ سے چار سو میل کے فاصلے پر واقع ایک شہر اشیر میں اس نے بہترین سفید لوبان کے بڑے بڑے ڈھیر دیکھے۔
یوں تو سارے عرب میں نجورات کا استعمال زمانہ قدیم سے عام تھا حتیٰ کہ یہود قوم کیلئے حضرت عیسیٰ سے قبل یہ عبادت کا ایک اہم حصہ تسلیم کیا جانے لگا۔ لیکن عیسائیت کو فروغ ملتے ہی دھونی کا چلن بڑی حد تک ختم کردیا گیا۔ کچھ ہی صدیوں بعد یورپ کی عیسائی عبادت گاہوں میں دھونی کا رواج ایک بارگی پھر شروع ہوگیا۔ اب یہ دھونی عرب کے لوبان سے ہی کی جانے لگی۔ انگلینڈ میں ہنری ہشتم کے دور میں ایک مرتبہ پھر دھونی دینے پر بڑی حد تک پابندی لگادی گئی، جو انیسویں صدی کے آخر تک رھی بعد میں نیوچرچ نام سے ایک مہم چلائی گئی جس کے تحت دھونی دینا مناسب قرار دیا گیا۔
اسلام میں مختلف موقعوں پر خوشبو اور بخور کے استعمال کو مناسب تو سمجھا گیا لیکن عبادت کا حصہ بنانے سے پرہیز کیا گیا ویسے ہندوستان کی مسلم درگاہوں میں دھونی دینے کا عمل ضرور شدت اختیار کرگیا جو بقول پروفیسر جے اے میکلاش ہندوستانی روایات کا اثر ہے۔
لوبان عربی لفظ لباں (عبرانی لبونہ، آرامی لی بونیہ، یونانی لباتوس) کا اردو اور ہندی روپ ہے او راسی نسبت سے اسے انگریزی میں Frankincense کے علاوہ Olibanumکہا جاتا ہے۔ لبان کی بنیاد لفظ لبن ہے، جس کے معنیٰ دودھ (سفید) کے ہیں۔ لوبان (لبان) جب تازہ ہوتا ہے یعنی جس وقت درختوں (اللبنی) سے رستا ہے تو دودھ کے مانند سفید ہوتا ہے اور فرحت بخش خوشبو دیتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد سفیدی میں کمی آتی ہے اور خوشبو بھی کم ہوجاتی ہے۔ لوبان پیدا کرنے والے درخت نباتاتی اعتبار سے Boswellia carterii کہلاتے ہیں۔ یوں کسی زمانہ میں ان کی پیداوار کا مرکز یمن کا سرد علاقہ ہوا کرتا تھا لیکن فی زمانہ صومالیہ میں اس کے کثرت سے جنگلات ہیں اورتجارتی لوبان کا اہم ذریعہ ہیں۔ پرانے وقتوں سے ہی لوبان کو ہندوستان میں درآمد کیا جاتا تھا اور یہاں سے دیگر اقسام کے خوشبودار گوند یمن کے راستے عرب اور یورپ کے ممالک کو بھیجے جاتے تھے۔ ان گوندوں میں دو خاص گوند تھے ایک کا ذریعہ ہندوستانی پودہ Boswellia serrata اور دوسرے کا ذریعہ جاوا کے پودے Styrax benzoin تھے۔ ہندوستانی گوند کو عرب تاجر لوبان ہند کے نام سے یورپ کی منڈیوں میں لے جاتے تھے اچھے قسم کے لوبان ہند کو کندرذکرکا بھی نام دیا گیا تھا جاوا سے درآمد کیا ہوا گوند ہندوستان میں آسانی سے دستیاب تھا جو عرب تاجروں کے ذریعہ لوبان جاوی کے نام سے باہر کی منڈیوں میں فروخت ہوتا تھا۔ انیسویں صدی میں جب ہندوستانی اشیاء کی تجارت عربوں کے ہاتھوں سے نکل کر یورپی اقوام کے پاس چلی گئی تو لوبان جاوی کا نام بن جاوی کردیا گیا او رکچھ عرصہ بعد یہ نام بگڑتا ہوا Benjaminہوا اور پھر benzoin کہلایا۔ آج ساری دنیا میں لوبان جاوی Gum Benzoin کے نام سے موسوم ہے۔
صومالیہ اوریمن کا اصل لوبان اب ہندوستان میں کمیاب ہے بازاروں میں جو لوبان ملتا ہے اس کے متعلق دعویٰ تو عام طور سے کیا جاتا ہے کہ یہ یمنی پیداوار ہے لیکن حقیقتاً وہ Gum Benzoin ہوتا ہے۔ راقم الحروف نے ممبئی، لکھنؤ سمیت ہندوستان کے مختلف بازاروں سے کئی درجن نمونے لوبان، لوبان دیسی، لوبان بندا، لوبان کوڑی وغیرہ ناموں سے خریدے اور ان کا کیمیاوی تجزیہ کیا۔ پتہ چلا کہ ان میں سے ایک نمونہ بھی اصل لوبان یعنی لوبان یمن یا لوبان صومالیہ کا نہ تھا۔ سب کے سب یا تو انڈونیشیا سے درآمد کئے ہوئے Benzoin نامی گوند تھے یا پھر برما سے برآمد کئے ہوئے Styrax tonkincense پودے کے گوند تھے۔ کچھ سستے لوبان میں راجن (Rosin) کی بھی ملاوٹ تھی۔ عجیب بات ہے کہ کندر نام کے ہندوستانی گوند یعنی لوبان کے نام سے یورپ، امریکہ اور عرب ممالک کو برآمد کئے جاتے ہیں جبکہ خود ہندوستان کے بازاروں میں انڈونیشیا او ربرما کے گوند لوبان کہلاتے ہیں۔
1940عیسوی تک عدن کی بندرگاہ سے یمن اور صومالیہ کا اصل لوبان تقریباً ایک لاکھ کلو کی مقدار میں برآمد کیا جاتا تھا جس کا بیشتر حصہ ہندوستان اور چین کو دیا جاتا تھا لیکن ڈائرکٹر آف کمرشیل انٹلی جنس، کلکتہ کی رپوٹ کے مطابق آج کل یمن اور صومالیہ سے مُرمکی تو خاصی مقدار میں درآمد کیا جاتا ہے لیکن لوبان کی درآمد قابل لحاظ نہیں رہی ہے برخلاف اس کے لوبان ہند (کندر) Olibanum کے نام سے ہرسال پچیس ہزار کلو برآمد کیا جاتا ہے، جس سے ملک کو تقریباً پچاس لاکھ روپے کا زر مبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ ہندوستانی لوبان درآمد کرنے والے اہم ممالک میں امریکہ، انگلینڈ، نیپال، تھائی لینڈ اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔
کیمیاوی اعتبار سے لوبا ن ایک ایسا گوند ہے، جس میں تیل اور ریزن (Resin) کی ملاوٹ ہوتی ہے۔ سائنسی اعتبار سے اس کے بے پناہ فوائد ہیں۔ دھونی کے طور پر یہ دافع عفونت اور جراثیم کش ہے اور فضا کو صاف رکھتا ہے۔ اس لئے مردے کے قبر میں لوبان (یا دوسرے بخورات) کو جلانے سے بیماری کے جراثیم فضا میں نہیں پھیل پاتے ہیں۔ طبی اعتبار سے لوبان پیٹ اور دماغ کیلئے ایک ٹانک کی حیثیت رکھتا ہے اسے فالج میں بھی مفید بتایا گیا ہے۔ متعدد ایلوپیتھک دوائوں کا یہ اہم جز ہے۔
لوبان کا ذکر لبان کے نام سے چند احادیث میں بھی ملتا ہے۔ مثلاً بیہقی او رشعب الایمان میں ایک حدیث حضرت عبداللہ بن جعفر سے مروی ہے جو اس طرح ہے:
’’اپنے گھرو ں کو لوبان (لبان) اور حب الرشاد (شیح) سے دھونی دیا کرو‘‘
ایک دوسری حدیث میں جو ذہبی میں شامل ہے، اس طرح ہے:
’’اپنے گھروں کو صعتر اور لوبان (لبان) سے دھونی دیا کرو۔‘‘
طب نبوی کے موضوع پر تصنیف کی گئی کتابوں میں لوبان اور کندر کو ایک ہی چیز بتایا گیا ہے، جو سائنسی اعتبار سے بالکل غلط ہے۔ لوبان عرب کی پیداوار ہے جبکہ کندر ہندوستان کی پیداوار ہے۔ یہ بات یقینا قرین قیاس ہے کہ حضور اکرمؐ کے زمانہ میں عرب میں ہندوستانی کندر کا استعمال بعض امراض کیلئے ہوتا تھا چنانچہ حضرت انس بن مالک سے مروی حدیث کا تذکرہ ابن القیم الجوزیہ نے اپنی طب نبویؐ میں یوں کیا ہے:
’’ایک شخص نے ان کی (حضو راکرمؐ) خدمت میں یاد داشت کی خرابی کی شکایت کی، آپ نے فرمایا کہ کندر (حدیث الکندر) لے کر رات میں پانی میں بھگودیا جائے، صبح نہار منہ اس کا پانی پیا جائے کیونکہ یہ نسیان کیلئے بہترین دوا ہے۔‘‘

نوٹ ۔۔طب نبویؐ کی کتابوں میں لفظ لبان کے علاوہ لفظ کندر بھی استعمال ہوا ہے۔ ان دونوں کا ترجمہ لفظ لوبان سے کیا گیا ہے جو صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ دونوں کے ذرائع مختلف پودے ہیں۔ ایک (لبان، لوبان) کاذریعہ یمن اور مشرقی افریقہ کا Boswellia carterii ہے جب کہ دوسرے کاذریعہ ہندوستان کا Boswellia serrata ہے۔طب نبویؐ کی کچھ کتابوں میں لوبان کا ذریعہ جاوا کا پودہ Styrax benzoin بتایا گیا ہے جو غلط ہے۔ اس پودے سے نکالا گیا گوند (resin) Benzoin کہلاتا ہے اور اس کا لوبان یا کندر سے دور کابھی واسطہ نہیں۔