نکاح کی حکمت عملی سنت کے مطابق کریں

تاثیر،۲۱  اکتوبر۲۰۲۳:- ایس -ایم- حسن

عبداللطیف ندوی
دارالعلوم نظامیہ فرنگی محل ،لکھنؤ

نکاح انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔ مرد ہو یا عورت زندگی ادھوری رہتی ہے جب تک کہ وہ نکاح کے بندھن میں نہ بندھ جائیں۔ یہ بڑا پاکیزہ اور مقدس رشتہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو پیداکیا اور انھی سے اُن کا جوڑا حضرت حوا کو بنایا۔ اس طرح شوہر اور بیوی کا یہ پہلا انسانی رشتہ وجود میں آیا۔ باقی سارے رشتے ماں باپ، بیٹابیٹی، بھائی بہن و دیگر رشتے داریاں بعد میں اس مقدس رشتہ کے ذریعے وجود میں آئی ہیں۔قرآن میں بھی کئی جگہوں پر نکاح کی تاکید کی گئی ہے۔بلاشبہ خاونداوربیوی کارشتہ بڑاہی پاکیزہ اوراٹوٹ ہوتاہے لیکن یہ جس قدر اٹوٹ اورطاقتور ہوتاہے اسی قدر نازک بھی ہوتاہے کبھی کبھی ذراسی بات پر بکھر کر رہ جاتاہے جس کے نتیجے میں گھرکاماحول پراگندہ ہوکر رہ جاتاہے ،ایک کامیاب ازدواجی زندگی گزارنے کیلئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کے جذبات اورمزاج کا پورا خیال رکھاجائے اورجہاں تک ممکن ہو شکوہ اورشکایت کامزاج نہ بنایا جائے ،بلکہ ایک دوسرے کا پورا خیال رکھاجائے ،یقینا ایک مرداورعورت کیلئے رشتے کاتوڑنا بڑامشکل ہوتاہے لیکن آپسی بدگمانیوں کی وجہ سے رشتہ کو باقی رکھنا بھی تقریباً ناممکن ہوجاتاہے۔چندچیزیں جو اس عظیم رشتہ میں رکاوٹ بنتی ہیں ان سے بچناچاہیے۔
تقابل:آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ لوگ پوشیدہ یا کھلے عام اپنی زندگی اور ساتھی کا دوسرے سے مقابلہ وموازنہ کرتے ہیں لیکن کیا آپ یہ جانتے ہیں کہ سب سے بدترین اور تکلیف دہ صورتحال وہ ہوتی ہے جس میں آپ کا مقابلہ یا موازنہ کسی دوسرے سے کیا جارہا ہو۔ یہ باور کرنے کی کوشش کی جائے کہ آپ فلاں شخص سے کم تر ہیں۔ شادی شدہ جوڑے اکثر یہ سنگین غلطی کرتے ہیں جس کے نتائج خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ تقابلہ یا موازنہ آپ کی خوشیوں کا دشمن ہے۔ کیونکہ ایسا کرتے ہوئے آپ اپنے رشتے کی خوبصورتی کو فراموش کردیتے ہیں اور دوسرے جیسا بننے کی کوشش میں خود کو ہلاکان کرتے ہیں۔ یہ تسلیم کرنے میں ہی عافیت ہے کہ آپ کا ساتھی جو ہے جیساہے وہ آپ کیلئے اہم ہے اس میں کسی دوسرے کی شخصیت کو تلاشنابے سودہے۔ہرشخص اپنی تقدیر کا مالک ہے۔
سمجھوتہ:سمجھوتہ سے اگر آپ کی مراد یہ ہے کہ دوسرے فریق کی کسی ایک بات کو مان کر اس سے اپنی منوالینا تو یہ کافی حد تک غلط ہے۔ ایک مضبوط رشتے میں سمجھوتے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اپنے ساتھی کو اس کی تمام ترخوبیوں اور خامیوں سمیت قبول کیا ہے۔ ہر لمحہ دوسرے پر قبضہ ظاہر کرنے سے رشتے کی بنیادیں کھوکھلی ہوجاتی ہیں۔ غصہ:وہ لوگ جن سے آپ بے حد محبت کرتے ہیں ان پر ہی سب سے زیادہ غصہ آتا ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آپ کا ان سے آمنا سامنا بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ غصہ رشتے اور تعلقات کے ساتھ ساتھ افراد کے لیے بھی بے حد نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ غصہ کا بے جا اظہار بھی آپ کے اپنوں کو آپ سے دور کرنے کا سبب بنتا ہے۔ میاں بیوی اگر چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ کرنے لگیں اور ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے لگیں تو اس سے ناصرف گھر کا ماحول خراب ہوتا ہے بلکہ ذہنی و جسمانی اذیت بھی لاحق ہوجاتی ہے۔ بہت سی طلاقیں غصے کے نتیجے میں ہوتی ہیں۔
بے یقینی:کسی پر بھی یقین کرنا آسان ہرگز نہیں ہوتا جتنا لوگ سمجھتے ہیں۔ یقین اور اعتبار کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ بڑی مشکل سے آتا ہے اور جب آجائے تو انسان اپنے آپ کوسامنے والے کے سپرد کردیتا ہے۔ بہت سے واقعات میں رشتہ ٹوٹنے کی بڑی اور ٹھوس وجہ اپنے شریک حیات پر بے یقینی ہوتی ہے۔ اگر آپ مسلسل کسی پر اعتبار کررہے ہیں اور وہ آپ کے اعتبار سے لگاتار کھیل رہا ہے تو جان لیجئے کہ وہ شخص قابل اعتبار نہیں اور یہ تعلق زیادہ دیرپا ثابت نہ ہوگا۔
رازداری:راز رکھنا یقیناکوئی آسان بات نہیں۔ خاص طور پر لمبے عرصے پر محیط تعلق میں کسی راز کو چھپانا قدرے مشکل ہے۔ اگر شریک حیات آپ سے باربار کچھ چھپاتاہے تو ایسے میں معاملات زیادہ خراب ہونے سے پہلے ایک مرتبہ کھل کر بات کرلینی چاہیے پھر ایک اور وجہ جوکہ رازداری سے مشروط ہے وہ یہ کہ میاں بیوی کے درمیان بہت سی ایسی باتیں ہوتی ہیں جن میں رازداری بے حد ضروری ہوتی ہے۔ اب دونوں میں سے کوئی بھی اگر انہیں دوسروں کے ساتھ بیان کردے تو یہ نہ صرف اخلاقی طور پر بری بات ہے بلکہ رشتہ کے تقدس کو پامال کرنے کے ساتھ ساتھ اسے کھوکھلا بھی کردیتا ہے اور بعض اوقات نوبت طلاق تک جاپہنچتی ہے۔
گزشتہ کچھ سالوں میں کورونا وبا کے دوران طلاق کا سلسلہ کم ہونے کے بجائے بڑھا ہی ہے، گھریلو تشدد میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو شادیاں ختم ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ’’لاک ڈاؤن‘‘ نے خاندانوں کو گھر کی چہار دیواری میں ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع فراہم کیا وہیں اس دوران دارالقضات میں خلع کی درخواستوں میں مزید اضافہ دیکھنے کو مل رہاہے۔
نکاح ٹوٹنے کا مطلب محض دو لوگوں کارشتہ ختم ہونا نہیں ہے اس سے اکثر بندھن میں شامل دونوں افراد کا مستقبل اور اس سے بھی زیادہ بچوں کا مستقبل ان کی تعلیم وتربیت متاثرہوتی ہے۔شادی کے دوران گھریلو اختلافات ہوں یاپھر ماں یاباپ کے بغیر بڑے ہونا،اس کے ذہنی اثرات بچوں کی شخصیت کو بے حد متاثر کرتے ہیں۔
ایسا کیا کیا جائے کہ شادیاں ختم ہونے کی نوبت ہی نہ آئے؟ایساکون ساراستہ اختیار کیاجائے کہ رشتہ نہ صرف قائم رہے بلکہ اس میں بندھے کسی انسان کی حق تلفی بھی نہ ہو؟ عورت خود کو حقیر بھی نہ سمجھے اور مرد بھی خود کو ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبا ہوا نہ محسوس کرے۔شاید یہی ہماری غلطی ہے کہ ہمارا معاشرہ شادی کو کسی پریوں کی کہانی سے تعبیر کرتا ہے۔ لڑکیاں کم عمری سے دلہن بننے کا خواب دیکھتی ہیں تو لڑکا گھر واپسی پر ایک سجی سنوری دوشیزہ کا ارمان رکھتا ہے۔
نکاح ایک ایسا رشتہ ہے جو ایک بار شروع ہونے پر خودبخود نہیں چل سکتا۔اسی طرح کسی مقدس مقام یا عظیم شخصیت کے نکاح پڑھادینے سے زیادہ مؤثرخود دونوں فریقوں کا شریعت میں بتائے گئے طریقے کے مطابق معاملہ کرنا اور ایسے تمام معاملات سے بچنا بھی ضروری ہے جو اس رشتے میں درار کا سبب بنے ۔لہٰذا دونوں کو سمجھنا چاہیے کہ اس رشتے کو مستقل آبیاری کی ضرورت رہتی ہے۔غیر حقیقی توقعات رکھنے کے بجائے ایک دوسرے کے ساتھ چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے محظوظ ہو کر شادی شدہ زندگی کے سفر کو خوش گوار بنایا جا سکتا ہے۔
**********
رابطہ نمبر:7355097779