تاثیر،۲۹ اکتوبر۲۰۲۳:- ایس -ایم- حسن
اعجازعلی ساغر، اسلام آباد
اس وقت پاکستان میں رہنے والے غیر ملکی افراد خصوصاً افغان مہاجرین کی رضاکارانہ واپسی کا عمل آخری مراحل میں ہے 31 اکتوبر تک تمام غیر ملکی باشندے جوکہ غیر قانونی طور پر پاکستان میں رہ رہے ہیں کو فی الفور ملک چھوڑنے کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے حکومت رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے والوں کو تمام سہولیات فراہم کررہی ہے تاکہ وہ باآسانی اپنے اپنے ملکوں میں جاسکیں ویسے تو پاکستان میں تقریباً ہر قومیت کے لوگ رہتے ہیں لیکن زیادہ تر تعداد افغانیوں کی ہے اور ایسے غیر ملکی افراد جن کے پاس پاسپورٹ سمیت کوئی دستاویزی رہائشی ثبوت نہیں ہے ان کو ملک چھوڑنے کی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے اپنے ممالک روانہ ھوجائیں۔
پاکستان میں کم و بیش 30 لاکھ سے زائد افغانی پناہ لیے ھوئے ہیں ان افغانیوں کی تین تین چار چار نسلیں یہاں جوان ھوچکی ہیں افغانستان جو بیس سال سے زائد حالت جنگ میں رہا پہلے سویت یونین اور پھر امریکہ کی جانب سے چڑھائی نے افغان باشندوں کو ہمسائیہ ممالک میں پناہ لینے پر مجبور کردیا دنیا کی تاریخ میں پاکستان وہ واحد ملک تھا جس نے لاکھوں افراد انسانیت کی خاطر نہ صرف پناہ دی بلکہ جینے کی آزادی بھی دی دنیا کا کوئی ایسا ملک دکھا دیں جس میں کوئی غیر ملکی بغیر کسی دستاویزات کے کسی ملک میں اس طرح آزادی سے گھوم پھر سکے اور کاروبار کرسکے باقی ممالک میں آپ بغیر دستاویزات کے داخل ہی نہیں ھوسکتے لیکن پاکستان پچھلے پچاس سال سے ان لاکھوں افغان باشندوں کو اپنی آغوش میں لیے بیٹھا ہے اور وہ بے فکری کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں اس پرائے بوجھ نے پاکستان کو معاشی طور پر بہت نقصان پنہچایا ہے اگر کسی گھر میں دو تین افراد رہتے ھوں تو ان کی ضروریات بڑی فیملی کی نسبت کم ھوتی ہے اور جب اسی دو تین افراد والے گھر میں چار پانچ مہمان آجائیں اور آئیں بھی مستقل تو پھر اس گھر کے اخراجات کا اندازہ آپ خود لگائیے ظاہر ہے اسی آمدن میں دو تین افراد سے سات آٹھ افراد کے کے خرچ اخراجات پورے کرنے میں گھر کے سربراہ کو مجبوراً قرض لینا پڑے گا یا وہ دو تین افراد جو روزانہ تین ٹائم دو دو روٹی کھاتے تھے اب انہیں آدھی آدھی روٹی پر اکتفا کرنا پڑے گا کیونکہ انکے حصے کی ڈیڑھ روٹی ان کے مہمانوں میں تقسیم ھوچکی ہے یہی حال پاکستان کا ہے کہ یہاں آنیوالے مہاجرین آہستہ آہستہ مقامی افراد کی جگہ لینے لگے ان کے کاروبار،زمینیں سب کچھ ان مہمانوں کے پاس جانے لگا اور میزبان مہمانوں کے غلام بننے لگے۔دیکھتے ہی دیکھتے محض چند سالوں میں ان مہمانوں نے پورے ملک میں پنجے گاڑ لیے اور جس ملک میں وہ پناہ لینے آئے تھے اسی ملک کیخلاف بغاوتیں کرنے لگے چونکہ معاشی اعتبار سے انہوں نے یہاں مضبوطی اختیار کرلی تھی لہذا وہ میزبان ملک کی معیشت سے کھیلنے لگے انہوں نے میزبان ملک میں اسمگلنگ سمیت تخریبی کاروائیاں شروع کردیں اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کردیا اندرون ملک تخریبی سرگرمیوں میں افغان باشندوں کے ہاتھ نظر آنے لگے جبکہ افغان سرزمین بھی مسلسل اس ملک کے خلاف استعمال ھونے لگی جس ملک نے افغانستان کی چار پانچ نسلوں کو پروان چڑھایا ان کو روزگار دیا،عزت دی،گھر دیے حتیٰ کہ ہر طرح کی وہ آزادی دی جو ایک پاکستانی کو حاصل تھی مگر وہ پچاس سال میں بھی پاکستان میں رہ کر پاکستان کی تہذیب،روایات اور کلچر نہ سیکھ سکے حالانکہ آپ کسی بھی دوسرے کلچر کے لوگوں کے ساتھ چند سال گزاردیں تو آپ وہاں کی ہر چیز سیکھ جائیں گے مگر یہاں ایسا نہیں ھوا آپ عرب ریاستوں کو ہی لے لیں وہاں تب تک آپ نہیں جاسکتے جب تک مقامی شہری آپ کی ضمانت نہ دے اور اس ضمانت کے بدلے آپ ہر ماہ جو وہاں کمائی کرتے ہیں اس کا ایک مخصوص حصہ آپ کے کفیل یعنی بلانے والے کو ملتا ہے مطلب کماؤ پتر یعنی کماتے آپ ہیں اور کھاتے وہ ہیں لیکن افسوس یہاں ایسا کچھ نہیں ھوسکا پاکستان نے اقوام متحدہ اور یونیسف کے قوانین کی ھمیشہ پاسداری کی اور تمام مہاجرین کو کھلی آزادی دی۔
امریکہ کے افغانستان کے نکلنے کے بعد وہاں آہستہ آہستہ بحالی کا عمل شروع ھوچکا ہے جبکہ پاکستان میں معاشی صورتحال ابتر ہے جسکی وجہ سے وہ اب مزید ان مہمانوں کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہے یکم اکتوبر ان غیر رجسٹرڈ افراد جن کی تعداد کم و بیش 11 لاکھ ہے ان کو 31 اکتوبر تک رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے یکم اکتوبر سے اب تک 4100 سے زائد خاندان جن میں 11000 مرد، 8000 خواتین اور کم و بیش 26000 بچوں کو باعزت طریقے سے طورخم بارڈر کے ذریعے افغانستان بھیجا جاچکا ہے یہ سلسلہ 31 اکتوبر تک جاری رہے گا پورے ملک میں پرنٹ میڈیا کے ذریعے آگاہی مہم جاری ہے کہ اکتیس اکتوبر تک یہ ملک چھوڑ دیں اسکے بعد یکم نومبر سے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی افراد کیخلاف کریک ڈاؤن کیا جائے گا پورے ملک میں عوام کو آگاہی پیغام دیا جارہا ہے کہ وہ کسی غیر ملکی باشندے کو مقررہ وقت گزرنے کے بعد پناہ نہ دی جائے ورنہ ان افراد کیخلاف بھی کاروائی کیجائے گی جو غیر ملکیوں کو پناہ دیں گے۔آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر،وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور ان کی کابینہ کے اس فیصلے سے عوام بہت خوش ہے کیونکہ ملک میں جاری تخریبی سرگرمیوں جیسے کے خودکش دھماکوں،ڈکیتی و راہزنی اور مصنوعی مہنگائی میں واضح کمی آئے گی۔ایک بات واضح کرتا چلوں کہ حکومت صرف ان افراد کیخلاف کاروائی کرنے جارہی ہے جوکہ غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم ہیں کسی بھی ایسے شخص کو فی الحال نہیں چھیڑا جائے گا جن کے پاس افغان سیٹیزن کارڈ یا “پی او آر” کارڈ موجود ہے پی او کارڈ سے مراد وہ 14 لاکھ افراد ہیں جوکہ یونیسف اور اقوام متحدہ کی جانب سے باقاعدہ رجسٹرڈ ہیں۔غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی تمام پراپرٹی اور کاروبار بحق سرکار ضبط کرلیے جائیں گے اور ان افراد کو ڈی پورٹ کرکے بلیک لسٹ کردیا جائے گا پھر کبھی بھی وہ لوگ پاکستان میں داخل نہیں ھوسکیں گے۔تمام غیر ملکی افراد خصوصاً وہ افغان باشندے جوکہ غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم ہیں وہ رضاکارانہ طور پر پاکستان چھوڑ دیں اور اپنے ملک روانہ ھوجائیں حکومت آپ کی بخریت واپسی میں آپکے ساتھ بھرپور تعاون کرے گی یکم اکتوبر سے اب تک رضاکارانہ طور پر واپس جانیوالے تمام افغان باشندوں نے حکومتی رویے کی تعریف کی ہے کہ ھمارے لیے سہولیات پیدا کی جارہی ہیں ھمیں پاکستان اور پاکستانی حکومت سے کوئی گلہ نہیں ہے آخر ایک نہ ایک دن ھمیں واپس جانا ہی تھا۔اس نرمی کے باوجود واپس نہ جانیوالوں سے سختی سے پیش آیا جائے گا۔ حکومت اور قانون نافذ کرنیوالے ادارے ان تمام غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی افراد سے آہنی ہاتھوں سے نپٹیں گے۔
******
Twitter: @SAGHAR1214