تاثیر،۷ اکتوبر۲۰۲۳:- ایس -ایم-حسن
نیویارک،7اکتوبر:اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے ایک رپورٹ پیش کی ہے جس میں انسانی حقوق کے ماہرین نے امریکہ کیکرمنل جسٹس سسٹم میں فوری اصلاحات کی اپیل کی ہے تاکہ اس مسئلے کا مقابلہ کیا جائے جسے وہ افریقی نڑاد امریکیوں کے خلاف منظم نسل پرستی قرار دیتے ہیں۔32 صفحات کی رپورٹ کیمطابق امریکہ میں نسل پرستی ،جو عشروں کی غلامی اور غلاموں کی تجارت کی میراث ہے اب بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سینسل کی بنیاد پرلوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک ، پولیس کیہاتھوں ہونے والی ہلاکتوں اور انسانی حقوق کی دوسری خلاف ورزیوں کی شکل میں موجود ہے۔اقوام متحدہ کی ایک غیر جانبدار ماہر ، Tracie Keesee نے کونسل کو بتایا کہ ،ہم نے امریکہ کے کرمنل نظام انصاف میں افریقی نڑاد امریکیوں کی غیر متناسب نمائندگی دیکھی ہے۔ٹریسی کیسی ،نفاذ قانون کے حوالے سے نسلی انصاف اور مساوات کے فروغ کے ایک ادارے ، انٹر نیشنل انڈیپینڈینس ایکسپرٹ میکنزم کے تین ارکان میں سے ایک ہیں۔ یہ میکنزم کونسل نے افریقی امریکی شہری جارج فلائیڈ کے قتل کے بعد قائم کیا تھا جو مئی 2020 میں منی سوٹا میں پولیس افسروں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے تھے۔میکنزم کی رپورٹ منظم نسل پرستی کی اصل وجوہات کی چھان بین کے لیے تفتیش کاروں کے اپریل اور مئی میں امریکہ کے چھ بڑے شہروں کے ایک بارہ روزہ دورے کی بنیاد پر ترتیب دی گئی ہے۔ انہوں نے پانچ حراستی مراکز کا دورہ کیا ، عہدے داروں اور سول سوسائٹی کے گروپس سے ملاقات کی اور 133 متاثرہ افرادسے براہ راست انٹر ویوز کیے۔کیسی نے اس سنگین مسئلے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ہم ان اعداد و شمار اور حالات کو دیکھ کر پریشان ہو گئے جن میں افریقی نڑادامریکیوں کی ایک غیر متناسب تعداد پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہو رہی ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہر سال ملک بھر میں 1000 سے زیادہ افراد مبینہ طور پر قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے ہاتھوں ہلاک ہوتے ہیں۔ دستیاب اعدادو شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونیوالے سیاہ فام لوگوں کی تعداد سفید فام لوگوں کی نسبت تین گنا زیادہ تھی۔اور ان کیگرفتار کیے جانے کا امکان 4 اعشاریہ 5 فیصد زیادہ تھا۔کیسی نے ذہنی صحت کے بحران ، تعلیم ، بے گھری اور ٹریفک کنٹرول کے سسٹم میں پولیس ریسپانس کے بڑھتے ہوئے استعمال پر تشویش کا اظہار کیا جس سے سیاہ فام افراد غیر متناسب طریقے سے متاثر ہورہے ہیں۔تفتیش کاروں کو معلوم ہوا کہ امریکہ کی جیلوں میں قید تمام خواتین کا 34 فیصد افریقی امریکی خواتین پر مشتمل تھا اور انہیں اپنی سفید فام ساتھی قیدیوں کی نسبت سختی یا بیڑیوں میں جکڑے جانے کا زیادہ سامنا ہو سکتا تھا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ میکنزم نے بیڑیوں میں جکڑی ان حاملہ خواتین سے براہ راست گفتگو کی اور ان سے یہ ناقابل برداشت تکلیف دہ گواہی براہ راست سنی کہ وہ بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ہونے کی وجہ سے بچے کی پیدائش کے دوران اپنے بچے ضائع کر بیٹھیں۔تفتیشی ٹیم نیبچوں کی ایک بڑی تعداد کو قید میں رکھے جانے پر بھی افسوس کا اظہار کیا جن میں سے بہت سوں کو بالغ قیدیوں کی جیلوں میں رکھا گیا تھا۔ تفتیشی ٹیم نے کہا کہ صرف 2019 میں 24 ہزار سے زیادہ بچے بالغ اور نابالغ افراد کی جیلوں میں قید میں تھے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیاہ فام بچوں کو اپنے سفید فام ہم عمرساتھیوں کے مقابلے میں نابالغ افراد کی جیلوں میں رکھنے کا امکان چار گنا زیادہ تھا اور یہ کہ ان میں سے بہت سے بچوں کو عمر قید کی سزا دی گئی تھی۔کیسی نے امریکی حکومت سے غلامی کے دور کی میراث سے عہدہ بر آ ہونے کی اپیل کی ہیجس کے نتیجے میں ابھی تک امتیازی سلوک کا سلسلہ جاری ہے ، انہوں نے” پولیسنگ “کے متبادل طریقے اختیار کرنے پر بھی زور دیاہے۔اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں امریکہ کی سفیر مشیل ٹیلر نے تسلیم کیا کہ امریکہ اور بیرون ملک قانون نافذ کرنے والے اداروں اورکرمنل جسٹس سسٹم میں افریقی نڑاد افراد کے خلاف منظم نسل پرستی صدیوں سیموجود ہے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ واشنگٹن نسلی انصاف اور مساوات کے فروغ اور جہاں کہیں بھی منظم نسل پرستی واقع ہوتی ہے اسے روکنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے بدستور پرعزم ہے۔انہوں نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ منظم نسل پرستی کے اثرا ت سے نمٹنے کے لیے متعدد اقدامات کر رہی ہے جن میں محفوظ، موثر اور قابل احتساب کمیونٹی پولیسنگ اوراسی طرح فوجداری نظام انصاف کو بہتر بنانا شامل ہے۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی ڈپٹی ہائی کمشنر ندا الناشیف نے ، کہا کہ ہائی کمشنر وولکر ترک کی ایک رپورٹ سیپتہ چلا ہے کہ جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد سے منظم نسل پرستی کے سد باب کے لیے کچھ مثبت اقدامات کیے گئے ہیں۔