تاثیر،۱۰ اکتوبر۲۰۲۳:- ایس -ایم- حسن
جموں، 10 اکتوبر: جموں و کشمیر کی اہم اپوزیشن جماعتوں نے منگل کو مرکز کے زیر انتظام علاقے میں جمہوری اور آئینی حقوق کی بحالی کے لیے تقریباً تین گھنٹے طویل دھرنا دیا۔ سال 2019 میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد یہ یہاں پہلا بڑا احتجاج ہے۔
جموں کے قلب میں واقع مہاراجہ ہری سنگھ پارک میں ہونے والے مظاہرے کی قیادت نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ کو کرنی تھی، لیکن وہ صحت خران ہونے کی وجہ سے سخت حفاظتی انتظامات والے مقام تک نہیں پہنچ سکے۔ تاہم صوبائی صدر رتن لال گپتا کی قیادت میں پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے احتجاج میں شرکت کی۔ اسی طرح پی ڈی پی کی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی احتجاج میں حصہ نہیں لیا لیکن جموں میں پارٹی کے تقریباً تمام سینئر لیڈران بشمول نائب صدر عبدالحمید چودھری اور سابق ایم ایل سی فردوس ٹاک احتجاج کا حصہ تھے۔نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے پیر کے روز کہا کہ الیکشن کمیشن جموں و کشمیر اسمبلی کے انتخابات کے شیڈول کا اعلان نہ کرنے سے لوگوں کو منتخب حکومت کے حق کے لیے سڑکوں پر آنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ عبداللہ نے پیر کے روز سری نگر میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ ہمیں ایسی صورت حال کی طرف دھکیلا جا رہا ہے جہاں ہمیں اپنے جمہوری حقوق کے لیے بھی احتجاج کرنا پڑے گا۔
این سی، پی ڈی پی، کانگریس، سی پی آئی (ایم)، نیشنل پینتھرس پارٹی (این پی پی)، عوامی نیشنل کانفرنس، شیو سینا (یو بی ٹی)، عوامی نیشنل کانفرنس اور سماجی تنظیموں سمیت مختلف جماعتوں کے سینکڑوں لیڈران اور کارکنان نے احتجاج میں شرکت کی۔ پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر وقار رسول وانی نے کہا کہ اپوزیشن پارٹیاں ریاستی حیثیت، جمہوری اور آئینی حقوق کی فوری بحالی کا مطالبہ کرنے کے لیے اکٹھے ہوئی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم عوام کے حقوق اور ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔
وانی نے الزام لگایا کہ بی جے پی جان بوجھ کر انتخابات میں تاخیر کر رہی ہے، یہ جانتے ہوئے کہ وہ اپنے اتحادیوں جیسے ڈیموکریٹک پروگریسو آزاد پارٹی اور اپنی پارٹی کے ساتھ انتخابی لڑائیوں میں شکست کا سامنا کرے گی۔ سی پی آئی (ایم) لیڈر ایم وائی تاریگامی نے کہا کہ انہیں بی جے پی کی زیرقیادت مرکزی حکومت سے کوئی امید نہیں ہے کیونکہ اس کے تمام وعدے جھوٹے ثابت ہوئے ہیں۔ پی ڈی پی کے فردوس ٹاک نے مشترکہ احتجاج کو جموں و کشمیر کے لوگوں کے لیے ایک مثبت اشارہ قرار دیا اور کہا کہ اس پلیٹ فارم سے ملک کو یہ پیغام ملتا ہے کہ تمام اپوزیشن جماعتوں کو موجودہ نظام کی تقسیم کی سیاست کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔