شاید اُسے چناوی سرگرمیوں کا انتظار تھا

تاثیر،۱۳  نومبر۲۰۲۳:- ایس -ایم- حسن

اتراکھنڈ حکومت جلد ہی اسمبلی کا خصوصی اجلاس بلائے گی۔خصوصی اجلاس میں یکساں سول کوڈ بل کو پیش کیا جائے اور اس پر بحث کی جائے۔ایک اخباری رپورٹ کے مطابق  بل میں صنفی مساوات اور آبائی جائیداد میں بیٹیوں کے مساوی حقوق کا بندوبست ہوگا۔  تاہم، اس میں لڑکیوں کی شادی کی عمر 18سے بڑھا کر 21 سال کرنے کی شق شامل نہیں ہے۔ یعنی اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ کی سفارش کرنے والی کمیٹی کی رپورٹ میں لڑکیوں کی شادی کی عمر میں ترمیم کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے ’’یکساں سول کوڈ کے ذریعے تمام مذاہب کے لیے شادی، طلاق، وراثت اور گود لینے سے متعلق معاملات میں یکساں قانون بنایا جائے گا۔ بل کی توجہ پرسنل لاز میں وسیع پیمانے پر یکسانیت لانا ہے۔‘‘ یعنی ان میں شادی کے رجسٹریشن، طلاق، جائیداد کے حقوق، نفقہ، بچوں کا تحفظ جیسے موضوعات شامل ہیں۔ تاہم، مجوزہ قانون شادی کے لیے روایتی مذہبی رسومات کو تبدیل نہیں کرے گا۔
بل میں ایک خصوصی شق ہے۔ اگر کوئی لیو ان ریلیشن شپ میں رہ رہا ہے تو اسے رجسٹر کرانا ہوگا۔ ریاست میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی سفارش کرنے والی رپورٹ جلد ہی حکومت کو پیش کی جائے گی۔ یہ کمیٹی سپریم کورٹ کی سابق جسٹس رنجنا پرکاش دیسائی کی قیادت میں تشکیل دی گئی تھی۔  اس میں پانچ ارکان ہیں۔مانا جا رہا ہے کہ ریاستی حکومت اس کی بنیاد پر یکساں سول کوڈ کا مسودہ تیار کرے گی۔  کیس سے متعلق قوانین کا جائزہ لینے کے لیے ماہرین کی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ بی جے پی کا اہم انتخابی ایشو تھا۔ ریاست میں بی جے پی کی حکومت بننے کے بعد کابینہ کی پہلی میٹنگ میں اس سلسلے میں کمیٹی کی تشکیل  کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ اتراکھنڈ کے وزیر اعلی پشکر سنگھ دھامی نےیہ اعلان کیا تھا کہ کمیٹی کی رپورٹ ملتے ہی ریاست میں یکساں سول کوڈ نافذ ہو جائے گا۔ کمیٹی میںجسٹس دیسائی کے علاوہ دہلی ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج پرمود کوہلی، سماجی کارکن منو گوڑ، سابق چیف سکریٹری اور انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس کے افسر شتروگھن سنگھ اور دون یونیورسٹی کے وائس چانسلر سریکھا انگوال شامل ہیں۔
  رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی کو تمام جماعتوں کی طرف سے کافی تجاویز موصول ہوئی تھیں کہ تمام فرقوں اور برادریوں کے لیے بچوں کی تعداد پر ایک جیسا قانون بنایا جائے،لیکن کمیٹی نے اس پر کوئی مشورہ نہیں دیا ہے۔ یہ ضرور کہا گیا ہے کہ آبادی پر قابو پانے کے حوالے سے عوام کا مطالبہ شدید ہے۔ یکساں سول کوڈ کو لاگو کرنے کے عمل کو آگے بڑھانے کے لئے بی جے پی حکومت والی دو ریاستوں یعنی مدھیہ پردیش اور گجرات میں بھی کمیٹی  تشکیل دی گئی ہے۔ انڈین لاء کمیشن نے بھی اس حوالے سے مشاورت کا عمل شروع کر دیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے جون کے آخری ہفتہ میں مدھیہ پردیش کے شہر بھوپال میں منعقد ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کچھ ایسی باتیں کہہ دی تھیں کہ یونیفارم سول کوڈ  (یو سی سی) کے حوالے سے پورے ملک میں بحث تیز ہو گئی تھی۔انھوں نے کہا تھا کہ کچھ سیاسی جماعتیں یو سی سی کے نام پر مسلمانوں کو اکسانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ بھارت کی انتخابی سیاست میں یکساں سول کوڈ کے معاملے کو بھی مذہب کے آئینے میں دیکھا جا رہا ہے۔فی الحال ملک میں، مختلف برادریوں کے اپنے مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر شادی، طلاق، وراثت اور گود لینے کے معاملات میں مختلف قوانین ہیں۔ یو سی سی کی آمد کے بعد، مذہب، جنس اور جنسی رجحان سے قطع نظر، بھارت میں مساوی قانون لاگو ہوگا۔ ایک ہی خاندان کے دو افراد کے مختلف اصول نہیں ہو سکتے۔ ایسے دوہرے نظام سے گھر کیسے چلے گا؟ پی ایم مودی نے کہا تھا،’’سپریم کورٹ بار بار ڈنڈا مارتی ہے۔ کامن سول کوڈ لانے کا کہتی ہے۔ لیکن یہ ووٹ بینک کے بھوکے لوگ اس میں رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں۔ لیکن بی جے پی سب کا ساتھ، سب کا وکاس کے جذبے کے ساتھ کام کر رہی ہے۔
وزیر اعظم کی مذکورہ تقریر کے بعد یوسی سی سی کے حوالے پورے ملک میں ہلچل بڑھ گئی تھی۔مسلم رہنماؤں اور ملی تنظیموں کی جانب سے دفاعی بیانات سامنے آنے لگے تھے۔ مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی نے یہ واضح کیا تھا کہ طلاق ثلاثہ کے خلاف قانون بننے کے بعد خواتین کے استحصال میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ مسلم پرسنل لاء سمیت متعدد مسلم رہنماؤں کی طرف سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ حکومت نے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے یو سی سی کا مسئلہ کھڑا کیا ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ یونیفارم سیول کوڈ صرف مسلمانوں کو ہی متاثر نہیں کرے گا بلکہ اس کی زد میں ویسے لاکھوں ہندو خاندان بھی آئیں گے ، جن کے رسم و رواج عام ہندوؤں سے الگ ہیں۔ حالانکہ مختلف ہندو وادی تنظیمیں طویل عرصے سے ملک میں تمام لوگوں کے لیے یکساں قوانین کا مطالبہ کر تی آ رہی ہیں۔یہ وہ تنظیمیں ہیں جو بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر بی جے پی سے جڑی ہوئی ہیں۔انھیں اس بات کی قطعی پروا نہیں کہ اس سے کسی کے مذہبی جذبات مجروح ہوں گے یا کسی کی روایات پر ضرب لگے گی۔شاید انھیں یہ اس بات کا یقین ہے کہ جو ’’یونیفارم سول کوڈ‘‘  ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے وہ در اصل ’’ ہندو سول کوڈ ‘‘ ہے، جو نہ صرف مسلمان بلکہ بھارت کے کسی بھی سیکولر شہری کے لئے قابل قبول نہیں ہوگا۔ بہر حال اتراکھنڈ حکومت کے تھیلے سے وہ بلّی بہت جلد باہر آنے والی ہے، جو  باہر آنےکے لئے کب سے بے چین ہے۔شاید اُسے چناوی سرگرمیوں کا ہی انتظار تھا۔
*************************