ملک کی’ دَشا اور دِشا ‘بدلنے کا رجحان

تاثیر،۱۱  نومبر۲۰۲۳:- ایس -ایم- حسن

حکومت بہار کے عہدوں اور خدمات کی خالی آسامیوں میں ریزرویشن ترمیمی بل 2023  کو بہار اسمبلی کے بعد بہار قانون ساز کونسل نے بھی منظوری دے دی ہے ۔ یعنی نتیش حکومت نے مقننہ کے دوسرے ایوانوںمیں ذات پر مبنی ریزرویشن کو 50 سے بڑھا کر 65 فیصد کرنے کی تجویز پاس کر دی ہے۔ اس بل میں ریزرویشن کی کل حد کو بڑھا کر 75 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔او بی سی، ایس سی، ایس ٹی اور انتہائی پسماندہ طبقات کے لیے 65 فیصد ریزرویشن کے علاوہ، اس میںای ڈبلیو ایس زمرہ کے لیے 10 فیصد ریزرویشن کو بر قرار رکھا گیا ہے۔ بی جے پی نے بھی اس بل کی حمایت کرتے ہوئےانتہائی پسماندہ لوگوں کے لیے ریزرویشن میں مزید اضافہ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ایک دن پہلے یہ بل بہار اسمبلی میں پاس ہوا تھا۔
جمعہ کو مقننہ کے سرمائی اجلاس کے آخری دن ریزرویشن ترمیمی بل 2023 پر قانون ساز کونسل میں بحث ہوئی تھی۔ اس پر بحث کے دوران بی جے پی نے نتیش حکومت سے انتہائی پسماندہ لوگوں کے لیے ریزرویشن بڑھانے کا مطالبہ کیا۔واضح ہو کہ موجودہ بل میں انتہائی پسماندہ طبقات کا کوٹہ بڑھا کر 25 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ اس سے قبل مقننہ کےگزشتہ اجلاس میں نتیش حکومت نے ذات پر مبنی مردم شماری کے معاشی اور سماجی سروے کے اعداد و شمار کو ایوان میں پیش کیا تھا۔ اس کے بعد سی ایم نتیش کمار نے اعلان کیا کہ ان کی حکومت ریزرویشن کا دائرہ 15 فیصد بڑھانے کی تجویز ایوان میں پیش کرے گی۔ اسے ریاستی کابینہ نے گزشتہ منگل کو منظوری دی تھی۔ اس کے بعد جمعرات کو اسمبلی میں متعلقہ بل پاس کیا گیا۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ نتیش حکومت نے آسانی سے ریزرویشن بل کو مقننہ کے دونوں ایوانوںسے منظوری تو حاصل کر لی ، لیکن نئی حد اتنی آسانی سے نافذ نہیں ہو نے والی ہے۔ نتیش حکومت اس بل کو گورنر کی منظوری کے لیے بھیج سکتی ہے۔ گورنر اسے نظرثانی کے لیے حکومت کو واپس بھیج سکتے ہیں۔ یا اس پر مرکز سے رائے لے سکتے ہیں۔ نتیش حکومت اس بل کو براہ راست مرکزی حکومت کو بھیج کر صدر سے منظوری کے لئے درخواست کر سکتی ہے۔اس کے لیے آئین میں ترمیم بھی درکار ہوگی۔ کیونکہ تمل ناڈو کو چھوڑ کر اب تک کوئی بھی ریاست  ریزرویشن کی حد 50 فیصد سے زیادہ بڑھانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ سپریم کورٹ کے رہنما خطوط کے مطابق ذات کی بنیاد پر ریزرویشن 50 فیصد سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔ ایسے میں بہار کا ریزرویشن بل بھی قانونی پیچیدگیوں میں پھنس سکتا ہے۔
دوسری جانب بہار کی موجودہ سیاست میں آئے ایک نئے موڑنے نہ صرف ریاست بہار بلکہ پورے ملک میں ایک بار پھر’’ منڈل بنام کمنڈل‘‘ جیسی بحث چھیڑ دی ہے۔تاریخ کے صفحات کو الٹ پلٹ کر لوگ اپنے اپنے موقف کا جواز ڈھونڈنے میں لگے ہوئے ہیں۔قابل ذکر ہے کہ سال 1990 میں وشو پرتاپ سنگھ کی اس وقت کی حکومت نے منڈل کمیشن کی رپورٹ کو نافذ کیا اور اس کے بعد سے ملک میں’’منڈل لہر‘‘ شروع ہوئی تھی۔علاقائی جماعتوں نے ہندی پٹی کی ریاستوں میں ایل کے اڈوانی کی قیادت والی بی جے پی کو چیلنج کیا۔ بہار میں لالو پرساد یادو اور اتر پردیش میں ملائم سنگھ منڈل کمیشن کی بھرپور حمایت کر کے اقتدار میں آئے تھے۔ انھوں نے پسماندہ ذاتوں کو ترقی یافتہ ذاتوں کے خلاف متحرک کیا۔ زیادہ تر لوگ اسے ’’منڈل بمقابلہ کمنڈل‘‘ کی سیاست کے نام سےہی جانتے ہیں۔
  لال کرشن اڈوانی نے بابری مسجد کے خلاف اور ایودھیا میں اسی جگہ رام مندر کی تعمیر کے لیے مہم چلائی تھی۔ اسے وہ کمنڈل کی سیاست کہتے تھے۔ لالو یادو اور ملائم سنگھ یادو بی جے پی کے’’ ہندوتو‘‘ سیاست کے خلاف رہنما بن کر ابھرے، لیکن چند ہی برسوں کے بعد بی جے پی کے خلاف ابھری یہ جماعتیں کئی حصوں میں منقسم ہو گئیں۔ان میں سے کئی نے بھارتیہ جنتا پارٹی سے ہاتھ بھی ملا لیا۔اس عمل میں بی جے پی کو پسماندہ طبقوں میں بھی اپنی جگہ بنانے کا موقع ملا۔ اس کے علاوہ، بی جے پی نے سوشل انجینئرنگ میں اپنے تجربات کیے اور پسماندہ طبقے کے رہنماؤں کو ساتھ لے کر اپنے کیڈرکو مضبوط کیا۔
اِدھر ملک کے سیاسی حالات نے تھوڑی کروٹ لی ہے۔نوے کی دہائی میں کانگریس کی قیمت پر پروان چڑھنے والی علاقائی جماعتیں اب اپوزیشن اتحاد ’’انڈیا‘‘ کے جھنڈے تلے کانگریس کے ساتھ اکٹھی ہوئی ہیں۔ چھوٹے موٹے اختلافات کے ساتھ نتیش کمار اور لالو یادو پورے ملک میں غیر بی جے پی پارٹیوں کو منظم کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ بہار کا کاسٹ سروے اسی سلسلے کا ایک حصہ ہے۔ظاہر ہے یہ اپوزیشن اتحاد 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں حکمران بی جے پی کے لیے ممکنہ خطرے کے طور پر ابھرتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بہار میں ذات کے سروے نے بی جے پی کی کمزوریوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔
  بلا شبہہ نتیش کمار اور تیجسوی یادو کی جوڑی نے بہار کی صورتحال بدل دی ہے۔ ریاستی حکومت نے حال ہی میں ایک مشت  اساتذہ کے  1.20  خالی عہدوں کو بھر کر پورے ملک کی ملازمت دینے کی تاریخ میں ایک رکارڈ قائم کیا ہے۔ ابھی مزید 1.20 لاکھ اساتذہ کے عہدوں پر تقرری کی کارروائی جاری ہے۔ اس کے علاوہ نتیش اور تیجسوی بے روزگاری، غریبی، عدم مساوات، رہائش، صحت، جمہوریت ، کارپوریٹ بدعنوانی اور آئین کے دفاع جیسے مسائل اٹھا رہے ہیں۔ سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ طبقات کے لیے ملازمتوں میں کوٹہ بڑھا کر 75 فیصد کر نے کی ہمت کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔سیاسی تجزیہ کار اس رجحان کو ’’منڈل۔ II‘‘کا عروج قرار دے رہے ہیں اور دعوے کے ساتھ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہی سیاسی رجحان نوے کی دہائی کی طرح 2024 کے بعد ملک کی’’ دَشا اور دِشا‘‘ بدل سکتا ہے۔
************