بی جے پی بھی تو یہی چاہتی ہے

تاثیر،۲۶  نومبر۲۰۲۳:- ایس -ایم- حسن

جیسے جیسے تلنگانہ میں ووٹنگ کا دن قریب آرہا ہے، ویسے ویسے ریاست میں انتخابات ایک دلچسپ موڑ لے رہے ہیں۔بر سر اقتدار بھارت راشٹرسمیتی (بی آر ایس)اور کانگریس کے درمیان براہ راست مقابلہ میں بی جے پی کئی جگہوں پر معاملے کو سہ رخی بنا رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ بی آر ایس اورکانگریس کے درمیان براہ راست مقابلے میں بی جے پی کی کارکردگی انتخابی ایکویشن میں الٹ پھیر کر سکتی ہے۔ تلنگانہ کے لوگ یہ بات اچھی طرح سمجھ رہے ہیں کہ بی آر ایس اور بی جے پی کے درمیان نورا کشتی ہو رہی ہے۔ تاہم، بی جے پی ریاست میں کئی سیٹوں پر مؤثر طور پر مقابلے میں ہے۔ ایسی بہت سی سیٹیں ہیں، جہاں بی جے پی کی کار کردگی بی آر ایس اورکانگریس کے مقابلے بازی پلٹنے کی حیثیت رکھتی ہے۔ان میں حیدرآباد کے علاوہ نرمل، عادل آباد، کریم نگر، حضور آباد اور نظام آباد جیسے علاقوں کی سیٹیں ہیں۔
مانا جا رہا ہے کہ بی آر ایس سے تال میل کے باوجود بی جے پی خود کو یہاں کنگ میکر کے کردار میں دیکھنا چاہتی ہے۔بی جے پی اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ یہاں کسی کو بھی واضح اکثریت نہ ملے تاکہ حکومت سازی میں اس کا کردار اہم ہو جائے۔ وارنگل کے عام لوگوں کا کہنا ہے کہ کچھ دن پہلے تک بی آر ایس اور کانگریس کے درمیان سیدھا مقابلہ تھا، لیکن بی جے پی جس جارحانہ انداز میں آگے آرہی ہے، اس سے یہاں معلق اسمبلی کا امکان بڑھ گیا ہے۔ دوسری طرف اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے بھی اپنی مہم میں اسے بی جے پی کا گیم پلان قرار دیا اور کہا کہ وہ یہاں معلق نتائج لانا چاہتی ہے، تاکہ آئندہ لوک سبھا انتخابات میں مخلوط حکومت کا فائدہ اٹھا سکے۔
تلنگانہ کے چار بی جے پی ارکان پارلیمنٹ میں سے تین شمالی تلنگانہ سے ہی آتے ہیں۔ ان میں کریم نگر سے پارٹی کے فائربرانڈ لیڈر مانے جانے والے بنڈی سنجے، نظام آباد کے ایم پی دھرما پوری اروند اور عادل آباد سے سویم باپو راؤ ہیں۔ بی جے پی نے ان تینوں ارکان پارلیمنٹ کو شمالی تلنگانہ کے اسمبلی انتخابات میں اتار دیا ہے۔ ان میں سے بنڈی سنجے کو کریم نگر سیٹ سے، دھرما پوری اروند کو کولترہ سے اور باپو راؤ کو نظام آباد کی بوتھ سیٹ سے میدان میں اتارا گیا ہے۔ کچھ اور سیٹیں ہیں، جہاں بی جے پی امیدوار بہت مضبوط ہیں۔ ان میں حید ر آباد کی گوشا محل میں ٹی راج سنگھ اور حضور آباد میں ایٹالا راجندر بہت مضبوط پوزیشن پر ہیں۔ ایٹالہ راجندر گجویل میں سی ایم کے۔ چندر شیکھر راؤ (کے سی آر) کے لئے ایک بڑا چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ کماریڈی میں بھی بی جے پی امیدوار کے۔ وینکٹ رمنا ریڈی راؤ کانگریس چیف ریونت ریڈی کو سخت چیلنج دے رہے ہیں۔ کماریڈی کے لوگوں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے امیدوار مقامی ہیں، جو مقامی مسائل کو اٹھا رہے ہیں۔ لوگوں میں ان کے تئیں ہمدردی کے جذبات ہیں۔بی جے پی کے امیدوار کا دعویٰ ہے کہ ہر حال میں ان کی پارٹی ہی میدان مارے گی۔
بی جے پی کے لئے حکمت عملی مرتب کرنے والوں میں سے ایک کا کہنا ہے کہ پارٹی تلنگانہ میں بہت محتاط انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔ پچھلی اسمبلی میں ایک سیٹ حاصل کرنے کے بعد لوک سبھا انتخابات میں چار سیٹیں حاصل کرکے پارٹی کو یہ اعتماد حاصل ہواہے کہ وہ یہاں بنیاد بنا سکتی ہے۔ 2020 میں گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کی 48 سیٹوں پر جیت سے اسے مزید تقویت ملی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس بار ہماری کارکردگی میں ضرور بہتری آئے گی۔
اِدھربی جے پی کا پون کلیان کی جنا سینا پارٹی کے ساتھ تال میل ہے، جس کو اس نے آٹھ سیٹیں دی ہیں۔ تلنگانہ میں عام لوگوں سے لے کر بی جے پی کیڈر اور حامیوں تک یہ مانتے ہیں کہ بنڈی سنجے سے پارٹی کی کمان لے کر مرکزی وزیرجی کشن ریڈی کو دینا پارٹی کی صحت کے لحاظ سے اچھا نہیں ہوا ہے۔ گجویل کے لوگوں کا کہنا ہے کہ جس دن سےبنڈی سنجے سے کمان لی گئی تھی اسی دن سے یہاں کانگریس کا عروج شروع ہو گیاتھا۔ اس سے پہلے یہاں مقابلہ بی آر ایس اور بی جے پی کے درمیان تھا۔ تاہم، کے سی آر حکومت کے بڑے ناقد جارح بنڈی کو ہٹا کر شگفتہ گو کشن ریڈی کو لانا بی جے پی کی حکمت عملی کا ایک حصہ مانا جا رہا ہے، تاکہ بی آر ایس اور بی جے پی کے درمیان آسانی کے ساتھ تال میل قائم ہو سکے۔دوسری جانب سیاسی حلقوں میں یہ چرچا ہے کہ کشن ریڈی اور کے سی آر کے درمیان کافی اچھے تعلقات ہیں۔ ایسے میں کشن ریڈی بی آر ایس کے مفادات کی تکمیل میںجتنے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں اتنا بنڈی کے رہتے ممکن نہیں ہوتا۔ کہا جاتا ہے کہ بی آر ایس اور بی جے پی کے درمیان یہ سمجھ بن چکی ہے کہ اسمبلی میں بی آر ایس کے لئے راستہ ہموار ہو جائے اور پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کے لیے۔
قابل ذکر ہے کہ تلنگانہ اسمبلی انتخابات کے لئے 30 نومبر کو ووٹنگ ہونی ہے۔ ووٹنگ میں کانگریس کو پیچھے دھکیلنے کے لئے بی آر ایس کے صدر اور تلنگانہ کے وزیر اعلی کے چندر شیکھر راؤ شروع سے ہی کانگریس پر حملہ آور ہیں۔انتخابی جلسوں میں کے سی آر کانگریس پر مسلمانوں کو صرف ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ کے سی آر موقع بے موقع یہ سوال پوچھتے رہتے ہیں کہ بابری مسجد کا انہدام کس کی نگرانی میں ہوا؟ نظام آباد میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کے سی آرنے پچھلے دنوں یہی سوال کانگریس لیڈر راہل گاندھی کے ’’نفرت کے بازار میں محبت کی دکان‘‘ کے حوالے سے پوچھا تھا۔ راؤ کا کہنا تھا کہ اگر کوئی سیکولر ہے تو اس کا سیکولرزم اس کے کام میں بھی جھلکنا چاہئے۔بہر حال ریاست کی کل 119 سیٹوں میں سے فی الحال کانگریس 75۔70 سیٹوں پر مضبوط پوزیشن میں ہے۔کانگریس کی انتخابی بندوبست بھی نسبتاََ بہتر ہے۔وہ حکومت مخالف لہر کو اپنے حق میں موڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔کانگریس کا سیدھا مقابلہ گرچہ بی آر ایس سے ہے ، لیکن بی جے پی حیدر آ باد اور اس کے آس پاس کی تین درجن سیٹوں پر بہتر مظاہرہ کر سکتی ہے۔یہی چند سیٹیں بی آر ایس کی حکومت سازی میں معاون ہو سکتی ہیں۔بی جے پی بھی تو یہی چاہتی ہے۔