تلنگانہ میں بڑے بڑے سیاستدان کی آمد دہلی سے، کانگریس، بی جے پی، مجلس اتحاد المسلمین کے ساتھ بی آر ایس پارٹی ڈراءیور سیٹ پر ہیٹ ٹرک، تجزیہ ایم اے فردین‎

تاثیر،۳  نومبر۲۰۲۳:- ایس -ایم- حسن

خصوصی سیاسی چشمہ/ریلی کا سلسلہ چل پڑا، وزیراعظم آکے جاچکے ہیں اور اب یہ سلسلہ وار فٹ پر ہونے والی ہے
دوسری جانب کانگریس کے راہول گاندھی پرینکا گاندھی کا یاترا اور ریلیاں جاری ہے
مجلس اتحاد المسلمین نے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کردیا ہے اور کچھ نام باقی ہیں’جلد ہی وہ بھی اعلان ہو جائے گا، بیرسٹر اسدالدین اویسی صاحب نے راہول گاندھی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ابھی آپ کو بہت کچھ معلوم نہیں، آپکی دادی دارالسلام آچکی ہیں
پارٹی کے صدر و سیکرٹری اور ہایی کمان کے لئے مشکل ترین مرحلہ، ناراض لیڈران کو منانے کی کوششیں، مگر پارٹی وفاداری بدلنے لگے ہیں وہ ناراض لیڈران جنہیں ٹکٹ نہیں ملا اور ایسے میں باغی تیور کے ساتھ پارٹی کو ہی چیلینج دینے لگے ہیں
 کہتے ہیں کہ محبت و جنگ میں سب کچھ جاءیز قرار دیا گیا ہے مگر ڈاکٹر مختار احمد فردین اور ماہر تعلیم ڈاکٹر اے کے علوی صاحب نے ایک نیا تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کو مفید مشورہ دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ہے کہ

اب جبکہ پانچ ریاستوں میں الیکشن کی تیاری مکمل ہوچکی ہے اور ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد کا مرحلہ سبھی سیاسی جماعتوں کے درد سر بن گیا ہے جسے ٹکٹ ملا وہ خوش اور جسے نہیں ملا وہ ناراض اور دھمکی دیتے ہوئے مطالبہ اگر نہیں مانا گیا تو پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں جانے کو ترجیح دیتے ہیں اور ایسے میں کیی بار مضبوط دعویدار سیاست داں بھی چاروں خانے چت ہو جاتے ہیں مگر سیاسی جماعتوں سے بہتر طریقہ ووٹروں کو چاہیے کہ سبق سیکھاءے کیونکہ ان کے ووٹوں سے جننے جاتے ہیں اور پھر انکے مشکلات کا حل اخر کون کرے اور پارٹی کی تبدیلی کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے، سیاستدانوں میں اصلاح کی ضرورت ہے اس لیے کہ ووٹروں کےلیے مشکلات اور حل آخر کون ڈھونڈے، ہم جنہیں ووٹ دیتے ہیں وہ کسی اور پارٹی میں جاکر فروخت ہو جاتے ہیں الیکشن میں ٹریڈنگ کا قصہ پرانا ہے
بلکہ ڈاکٹر اے کے علوی صاحب تو کہتے ہیں کہ ایسے امیدوار جو وفاداری تبدیل کرتے ہیں اسے کسی دوسری پارٹی میں جگہ ہی نہیں ملنی چاہیے اسلیے کے وہ اپنی مرضی کا مالک کیسے ہوسکتا ہے اس لیے اس طرح کے حالات میں سبق سیکھانے کے لئے کویی قانون اور سسٹم فالو کیا جانا ضروری ہے بلکہ اسطرح کے امیدوار کو ووٹر ہی مسترد کر دے تو بہتر ہوگا
بہر حال الیکشن کےموسم یہ تبدیلی عام سی بوگیی ہے’۔۔۔۔۔۔۔۔اوراسپر قابو پانے کی ضرورت ہے، ڈاکٹر مختار احمد فردین نے تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کی ہے کہ پارٹی چھوڑ کر آنیوالوں کو کویی جگہ نہیں دی جائے بلکہ پارٹی سے پانچ سال کیلئے معطل کر دیا جائے تاکہ پھروہ دوسری بار کسی اور پارٹیوں کا دروازہ نہیں کھٹکٹاءے، اصلاح کی ایک صورت تو یہی ہے اور اگر اس کے بعد بھی ناراضگی لیڈران کی ختم نہیں ہوتی تو ایسے میں ایک لمبی مدت کے لیے معطل کر دیا جاءے، مگر ایسا کرنا بھی بے معنی اسلیے کے دوسری پارٹی منھ کھولے بیٹھیں ہیں کہ ہم انہیں ٹکٹ دیکر یا مستقل کی ضمانت دیگر پارٹی میں استقبال کیا جارہا ہے اس سے زیادہ نقصان کانگریس کو ہوتا ہوا دیکھایی دے رہی ہے مگر سیاست میں ممکن کچھ بھی قابل قبول ہے اسلیے بہت معیوب نہیں ہے
پارٹی بی ار ایس کے وزیر اعلی سے لیکر سبھی سیاسی لیڈران اپنے اپنے علاقوں میں رپورٹ کارڈ لیکر ووٹروں کے پاس جارہے ہیں، کامیابی یقینی ہے اور سو سیٹ سے زیادہ تو لاءیں گے ہی، مگر دوسری سیاسی جماعتوں میں بھی یہی یقین، دیکھیے آگے آگے، تلنگانہ کے نتائج سے بہت کچھ طے ہوگا 2024 کے لئے، سیاسی چشمہ سے ایم اے فردین کی فکر و نظر اور عمل۔۔۔۔۔۔۔۔!!!