حوصلے آہنی دیوار گرادیتے ہیں

تاثیر،۳۰ نومبر۲۰۲۳:- ایس -ایم- حسن

اسلامی شریعت کامل شریعت ہے ۔ یہ ہر طرح کی خامیوں ، کمزوریوں اور لایعنی باتوں سے پاک ہے۔اسلامی شریعت بنی نوع انساں کے مفادات کے حصول ، خرابیوں کے ازالے ، بھلائیوں کے در کھولنے اور عقائد و قوانین کی بدی کے دروازے بند کرنے کیلئے آئی ہے۔ اسلامی شریعت نے انسان کی پانچ بنیادی ضرورتوں کا بھرپور احاطہ کیا ہے۔ وہ ضرورتیں ہیں دین، عقل ، دولت ، آبرو اور حسب نسب کی حفاظت ۔
دین ودنیا کے تمام امور مفادات کے حصول اور نقصانات کے ازالے میں محصور ہیں۔ اسلامی شریعت نے بنی نوع انسان کے تمام مفادات کی نشاندہی کرکے ان کے اطراف حفاظت کا حصار قائم کردیا ہے۔ اسلامی شریعت نے تمام نقصانات متعین کرکے ان سے بچاؤ کی تدابیر بتائی ہیں اور ان پر عمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ علمائے شریعت نے قرآن و سنت کے تناظر میں بنیادی دستوری ضابطے عطا کئے ہیں۔ ایک ضابطہ یہ ہے کہ نقصان واجب الدفع ہے۔ ایک ضابطہ یہ ہے کہ کسی کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں۔ اسی طرح اسلامی فقہ نے ہمیں یہ ضابطہ بھی دیا ہے کہ انسان ضرر کا متحمل نہیں ہوگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنوں اور دوسروں کے حقوق سمجھائے ہیں۔ انکی حفاظت کی ہدایت کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ سلم نے ہمیں ننگی تلوار کسی کو پکڑانے یا کسی کی طرف بڑھانے سے منع کیا ہے۔ ایسے میں یہ سوال ہے کہ ایسا مذہب مسلمانوں کو ایک دوسرے کا خون بہانے کی اجازت بھلا کیسے دے سکتا ہے ؟
اسلام نے فریب ، حسد ، غیبت ، نفرت ، چغلی، بغض، اشاروں کنایوںسے برائی، حق تلفی،لوگوں کی دولت پر ہاتھ صاف کرنے کے ساتھ ساتھ کسی کو اس کے مذہب، اسکے ذہن او راسکی آبر وکے حوالے سے نقصان پہنچانے سے منع کیا ہے۔ انسانی ذہن کتنا ہی پختہ ، انسانی سوچ کتنی بھی عالی اور انسانی معرفت کتنی بھی وسیع و عمیق کیوں نہ ہوجائے وہ اسلامی شریعت جیسے عظیم قاعدوں اور ضابطوں تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی۔ نقصان اٹھانے اور نقصان پہنچانے سے روکنے کے سلسلے میں اللہ کا عطا کردہ ضابطہ ایسا رنگ ہے، جس پر کوئی اور رنگ نہیں چڑھ سکتا۔ اسلام نے دوسروں کے حقوق کے احترام کی ہمیں تلقین کی ہے۔ دوسروں کے حقوق کا احترام ایمان کا بنیادی تقاضا ہے۔  اسلام نے ہمارے لئے بھلائی اور اچھے کاموں کے بے شمار دروازے اور راستے کھول دیئے ہیں۔ مسلمان اچھائی کے جس راستے سے چاہے اپنی دنیا سنوار سکتا ہے اور اپنی آخرت کو آراستہ کرسکتا ہے۔ ہمیں حکم ہے کہ اچھائیوں میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے معروف صحابی حضر ت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خطاب کرتے ہوئے ایک بار کہا تھا ’’ کیا میں تمہیں بھلائی کے دروازوں کا علم نہ دیدوں؟‘‘ یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روزہ ڈھال ہے اور صدقہ غلطی کی آگ کو ٹھیک اسی طرح بجھا دیتا ہے، جس طرح پانی آگ کو ۔ آدھی رات کو نماز کی ادائیگی میں بڑی کامیابی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما کر قرآن پاک کی وہ آیت تلاوت کی، جس میں کہا گیا ہے کہ اہل ایمان وہ ہیں، جن کے پہلو بستروں سے کنارہ کش رہتےہیں۔ وہ اللہ سے ڈر کر اور اسکی رحمت کی امید پر اس سے دعائیں کرتے ہیں۔یعنی ایک سچے اور اچھے مسلمان کی پہچان یہ ہے کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی میں پیش پیش رہے وہیں اللہ تعالیٰ کے بندوں ، خواہ ان کا تعلق کسی بھی عقیدہ یا مذہب سے کیوں نہیں ہو،کے انسانی حقوق کی حفاظت میں سب سے آگے رہے۔
      الغرض موجودہ دور میںمشرق ومغرب کے مابین جو تہذیبی جنگ چھڑی ہوئی ہے ، اس میں اہل مشرق کے غالب اورساکنان یورپ کے مغلوب ہونے کی وجہ یہی ہے کہ ایک نے اسلام کی آفاقی وابدی ہدایات واحکام کو سینے سے لگائے رکھا ہے،جب کہ دوسرے نے انسانیت کا جامہ اتارکر حیوانیت کا لبادہ اوڑھ لیاہے۔ مغربی تہذیب رشتوں کے تقدس کو کب کا خیر باد کہہ چکی ہے۔ وہاں انسانیت تو درکنار ماں باپ ،بہن بھائی، چچا ماموں،خالہ اور پھوپھی جیسے رشتوں کا تصورتک عنقاہے۔مغرب اپنی خاندانی قدروں اور معاشرتی اکائیوں کو پامال کرنے کے بعد ،اب یہ چاہتاہے کہ پوری دنیا میں اس کی دجالی تہذیب کا ڈنکا بجے۔اس طاغوتی مقصد اورمشن کو پورا کرنے کے لیے قدیم وجدید ذرائع ابلاغ کا بھرپور استعمال کیا جارہاہے۔ نتیجہ یہ نکل رہاہے کہ ہماری نئی نسل بڑی تیزی سے اس دلدل میں دھنستی چلی جارہی ہے ؛مگر اس حقیقت سے کوئی ہوش مندانکار نہیں کرسکتا کہ ہمارے آج کے اسلامی معاشرے میں رشتوں کا ادب واحترام اورعظمت ومحبت بری طرح پامال ہورہی ہے۔ اولاد ماں باپ کی نافرمان بن چکی ہے۔ بہن بھائی باہمی حسد وبغض میں مبتلاہیں۔ رشتہ دار ایک دوسرے کوکاٹ کھانے کے لیے دوڑ رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ یہ سب کچھ احکام دین سے دوری کا نتیجہ ہے۔ اگر ہم ابھی اور اسی وقت یہ عزم وارادہ کرلیں کہ شریعت مطہرہ کے ہرہر حکم پر دل وجان سے عمل کریں گے ،اللہ رب العالمین کاڈر وخوف پیدا کرکے ان کے بتائے ہوئے احکام پر عمل پیراہوں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے ذہنی اضطراب اورنفسیاتی ہیجان میں کمی واقع نہ ہواور ہم طاغوتی کھائی میں گرنے سے بچ جائیں، ضرورت ہے صرف پختہ نیت اورعزم و حوصلے کی۔بلا شبہہ حوصلے اگر مضبوط ہوں تو آہنی دیوار گرتے دیر نہیں لگتی ہے۔
*********************