تاثیر،۲۰ نومبر۲۰۲۳:- ایس -ایم- حسن
ورلڈ کپ 2023 کے فائنل میں شکست وطن عزیز بھارت کی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں اور شائقین کے لیے کسی صدمے سے کم نہیں۔ احمد آباد کے نریندر مودی اسٹیڈیم میں پچھلے اتوار کو جیسے ہی آسٹریلیا کے کھلاڑی گلین میکسویل نے 43ویں اوور کی آخری گیند پر دو رن لیے بھارت کے کروڑوں شہریوں کا خواب چکنا چور ہو گیا۔ شکست کے بعد بھارتی کھلاڑیوں کے چہروں پر مایوسی صاف دکھائی دے رہی تھی۔ کپتان روہت شرما فوراً ڈریسنگ روم کے اندر چلے گئے۔ محمد سراج میدان میں ہی رونے لگے۔ اس میچ کو دیکھنے کے لیےوزیراعظم نریندر مودی بھی احمد آباد پہنچے ہوئے تھے۔ آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی بھارتی کرکٹ ٹیم کے ڈریسنگ روم پہنچے۔کھلاڑیوں کا درد بانٹا اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ وزیر اعظم نریندر مودی کا ڈریسنگ روم میں جانا بہت ہی خاص اور متاثر کن تھا۔
ورلڈ کپ فائنل کے بعد وزیر اعظم مودی نے انسٹاگرام پر لکھا ’’پیاری ٹیم انڈیا، ورلڈ کپ میں آپ کا ٹیلنٹ اور عزم قابل ذکر تھا۔ آپ نے بڑے جذبے سے کھیلا اور ملک کا سر فخر سے بلند کیا۔ ہم آج اور ہمیشہ آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘‘ آسٹریلیا کو مبارکباد دیتے ہوئے انہوں نے لکھا’’ورلڈ کپ میں شاندار جیت آسٹریلیا کو مبارک ہو! پورے ٹورنامنٹ میں ان کی کارکردگی قابل ستائش رہی، جس کا اختتام شاندار فتح کے ساتھ ہوا۔ ٹریوس ہیڈ کو ان کی شاندار کارکردگی پر مبارکباد۔فتح و شکست کے اعلان کے بعد نریندر مودی نے خود آسٹریلوی کپتان پیٹ کمنز کو ورلڈ کپ کی ٹرافی دی۔ وزیراعظم میچ کے اختتام سے کچھ دیر قبل سٹیڈیم پہنچ گئے تھے۔ انھوں نے ناظرین کے درمیان بیٹھ کر میچ دیکھا۔ آسٹریلیا کے نائب وزیر اعظم رچی مارکس بھی ان کے ہمراہ تھے۔ ٹیم انڈیا کی شکست کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی بھی کافی مایوس نظر آئے تھے۔
اِدھر آئی سی سی ورلڈ کپ کے فائنل میں ٹیم انڈیا کی شکست پر سیاست کا شروع ہونا حیرت انگیز نہیںہے۔ بیشتر اپوزیشن لیڈر اس شکست کے لئے بی سی سی آئی اور بی جے پی کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ شیو سینا(ادھو بالا صاحب ٹھاکرے) پارٹی لیڈر اور ایم پی سنجے راوت کا کہنا ہے’’ اگر فائنل وانکھیڑے اسٹیڈیم میں ہوتا تو ہم یقیناََ جیت جاتے۔پہلے تو سردار ولبھ بھائی اسٹیڈیم کا نام بدل کر نریندر مودی اسٹیڈیم رکھ دیا گیاتاکہ اگر وہاں بھارتی ٹیم جیتتی تو یہ پیغام دیا جاتا کہ بھارت نے ورلڈ کپ اس لیے جیتا کیوںکہ وزیر اعظم نریندر مودی نریندر مودی اسٹیڈیم میں موجود تھے۔ یہ پردے کے پیچھے چل رہا بی جے پی کا ایک بڑا گیم پلان تھا ۔ اگر ٹیم انڈیا جیت جاتی تواس کا پورا کریڈٹ لینے کے لیے بی جے پی پوری تیار ی کر چکی تھی۔‘‘ میچ کے دوران اسٹیڈیم میں پی ایم مودی اور امیت شاہ کی موجودگی پر انھوں نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ جب سے پی ایم نریندر مودی اقتدار میں آئے ہیں، ہر چیز کو سیاسی تقریب بنادیا جاتا ہے۔ حالانکہ کرکٹ میں سیاست کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سنجے راوت نے ورلڈ کپ کے حوالے سے پورے ملک میں پھیلائے گئے ’’ دھرم یدھ‘‘ جیسے ماحول کے حوالے سے یہ بھی کہا تھا کہ لگتا ہے کہ پی ایم مودی بولنگ کر یں گے، امیت شاہ بیٹنگ کریں گے اور بی جے پی لیڈر باؤنڈری پر کھڑے رہیںگے۔ سنجے راوت نے ایک ٹویٹ میں کپل دیو کو مدعو نہ کرنے پر سوال اٹھایا۔ انھوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ورلڈ کپ جیتنے والی پہلی بھارتی ٹیم کے کپتان کپل دیو کو مدعو نہیں کیا گیا۔کرکٹ کے آئیکون کی بے شرمی سے توہین کی گئی، بھارت کی توہین کی گئی۔بی سی سی آئی اورآئی سی سی کو دنیا کو بتانا چاہئے کہ کیا انہوں نےبی جے پی کے دباؤ میں ایسا کیا؟ اس کی وضاحت پوری کرکٹ کی دنیا کے سامنے آنی چاہئے۔حالانکہ ان کا یہ بھی کہنا تھاکہ بھارتی ٹیم کی شکست پر سب کو دکھ ہے۔ بھارتی ٹیم بہت اچھا کھیل رہی ہے۔
اِدھر ورلڈ کپ کے فائنل میں ٹیم انڈیا کی شکست کے سوال پر سوشل میڈیا پر بھی ہنگامہ برپا ہے۔ کچھ لوگ کرکٹ میچ کو ’’دھرم یدھ‘‘ کا نام دے کر اپنا ٹی آ ر پی بڑھانے والے گودی میڈیا کو آڑے ہاتھو ں لینے میںلگے ہیں تو کچھ لوگ حماقت کی حدکو پار کرتے ہوئے آسٹریلیا کے کھلاڑیوں کو ہی گالیاں دے کر اپنا غصہ ٹھنڈا کر رہے ہیں۔ اسی درمیان پروفیسر پنکج موہن کی ایک بہت ہی معتدل پوسٹ سامنے آئی ہے۔وہ لکھتے ہیں’’ اگر آسٹریلیا ہار جاتا تو بھی اسکے حوصلے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ آسٹریلیا کی اوسط فی کس آمدنی 64,491 ڈالر ہے، جب کہ ہندوستان کی اوسط فی کس آمدنی2381 ڈالر ہے ۔ اگر آسٹریلیا میچ ہار بھی جاتا تو اس کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے یا ان کے ملک میں آباد ہونے کے خواہشمند بھارتیوں کی تعداد میں کوئی کمی نہ آتی۔ مقابلہ ہو، کھیلوں کا میچ ہو یا جنگ، زندگی میں فطری آزادی رکھنےوالے ہی بالآخر کامیاب ہوتے ہیں۔ اس کے بر عکس جو لوگ دباؤ میں کام کرتے ہیں وہ اپنی طاقت کو ٹھیک سے ظاہر نہیں کر پاتے۔ جب میں نے سنا کہ آسٹریلیا کے وزیر اعظم نے نریندر مودی اسٹیڈیم میںبھارت کے وزیر اعظم کے ساتھ بیٹھ کر میچ دیکھنے کی دعوت قبول نہیں کرتے ہوئے ا پنے نائب وزیر اعظم ،جو بھارت اور آسٹریلیا کے دو طرفہ مذاکرات میں شرکت کے لیے پہلے سے بھارت میں موجود تھے۔ کو میچ دیکھنے کی اجازت دے کر احمد آباد بھیج دیا ہے،تو میں نے محسوس کیا کہ بھارت کو بھی میچ کے لیے اقتدار کے ہر کل پرزے کو مورچہ بند کرنے کی ضرورت نہیںتھی۔ احمد آباد کے اسٹیڈیم کو’’راشٹر واد کا کروکشیتر‘‘ بنانے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس سے کھلاڑیوں پر نفسیاتی دباؤ پڑتا ہے۔ ورلڈ کپ فائنل کی جیت قومی فخر کی عالمی توثیق کے طو ر پر دیکھنے والے بھارتیوں کے دلوں میں قوم پرستی کے جذبے کی لہر اٹھی۔ آسٹریلیا میں ایسا کچھ نہیں دکھا۔ جس دن بھارت معاشی طور پر خوشحال ہوگا اور بھارت تعلیمی اور ثقافتی طور پر ترقی یافتہ ہوگا، ورلڈ کپ کے میچ کو لوگ بس تفریح کے طور پر دیکھیں گے۔‘‘ پروفیسر پنکج موہن نے اپنے تجزئے میں جن بنیادی نکات کی جانب ہماری توجہ مبذول کرائی ہے،وہ یقیناََ بے حد اہم ہیں۔پتہ نہیں ایسے دنوں کے لئے ہمیں ابھی اور کب تک انتظار کرنا ہوگا !
*********