یہ شعلہ اب بجھنے والا نہیں ہے

تاثیر،۱۸  نومبر۲۰۲۳:- ایس -ایم- حسن

بہار کےگورنر راجندر آرلیکر نے ریزرویشن ترمیمی بل 2023 کو منظوری دے دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی بہار میں 65 فیصد ریزرویشن کا راستہ صاف ہو گیا ہے۔ اب ریاست میں بی سی، ای بی سی، ایس سی اور ایس ٹی کے لئے 56 فیصد ریزرویشن کو قانونی حیثیت مل جائے گی۔ اس تناظر میں جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ جلد ہی گزٹ شائع کرے گا۔ واضح ہو کہ بہار مقننہ کے گزشتہ سرمائی اجلاس میں اسمبلی اور قانون ساز کونسل میں اس بل کو متفقہ طور پر منظور کیا گیا تھا۔ اس میں ریاست میں ریزرویشن کا دائرہ 50 سے بڑھا کر 65 فیصد کرنے کی تجویز تھی۔ ای ڈبلیو ایس کے لئے نافذ 10 فیصد جوڑنے کے بعدریزرویشن کا فیصد 75  ہو جائے گا۔گزٹ شائع ہونے کے بعد درج فہرست ذاتوں کو 20 فیصد، درج فہرست قبائل کو 2 فیصد، انتہائی پسماندہ ذاتوں کو 25 فیصد اور پسماندہ طبقات کو 18 فیصد ریزرویشن ملنا شروع ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی معاشی طور پر کمزور جنرل زمرے (ای ڈبلیو ایس) کے لوگوں کے لیے 10 فیصد ریزرویشن کی فراہمی پہلے کی طرح ہی لاگو رہے گی۔
  بہا ر میں ریزرویشن کا دائرہ بڑھائے جانے کے سلسلے میں سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ ایسا کرکے سی ایم نتیش کمار نے بڑا داؤ لگایا ہے۔اس کے ساتھ ہی بہار میں ذات کی بنیاد پر سروے کرا کے انھوں نے ایک انتخابی بیانیہ ضرور طے کر لیا ہے۔ مانا جا رہا ہے کہ ذات کی بنیاد پر یہ سروے 2024 کے لوک سبھا  اور 2025 کے انتخابات میں ٹرمپ کارڈ ثابت ہوسکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نتیش کمار نے ذات کی بنیاد پرسروے کرانے کے سلسلے میں کوئی جلد بازی نہیںکی تھی۔وہ اور ان کی لابی نے ریزرویشن بڑھانے کے ہر نکتے کا بہت ہی باریک بینی انداز میں مطالعہ کیا تھا۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ دوسری ریاستوں میں جہاں ریزرویشن میں اضافہ کیا گیا ہے، وہاں کون کون سی مشکلات در پیش آئی تھیں۔ عدالت نے کیا کیا سوالات اٹھائے، ان کے کیا جوابات د ئے گئے اور نتائج پر کون سے اثرات مرتب ہوئے۔
قابل ذکر ہے کہ تمل ناڈو حکومت نے او بی سی زمرہ میں ونیار برادری کو 10.5 فیصد ریزرویشن دینے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے حکومتی فیصلے کو غیر آئینی قرار دیا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ بغیر کسی ڈیٹا کے ریزرویشن دیا گیا ہے۔ حکومت نے بھی اس طبقے کی پسماندگی کے حوالے سے کوئی ٹھوس ڈیٹا نہیں دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے مدراس ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو بر قرار رکھا، جس میں ہائی کورٹ نے اس ریزرویشن کو منسوخ کر دیا تھا۔ تاہم ریاستی حکومت کی جانب سے یہ دلیل دی گئی کہ مقننہ کو ایک کمیونٹی کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے ریزرویشن کا کوٹہ فراہم کرنا ہوگا۔ اِدھر بہار میں ذات کی بنیاد پر سروے کو لے کر نتیش حکومت کو جب عدالت جانا پڑا، تب یہ دلیل دی گئی کہ یہ سروے اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ آبادی کے لحاظ سے اسکیموں میں ہر کسی کو مناسب حصہ داری دی جا سکے۔ عدالت کی منظوری کے بعد سروے کا کام دوبارہ شروع ہوا۔ لیکن، ریاستی حکومت کا ٹارگٹ ریزرویشن کے کوٹہ میںآبادی کے اعتبار سے اضافہ تھا۔نتیش حکومت اس میں کامیاب بھی ہو گئی۔ ادھر جب تمل ناڈو حکومت نے ریزرویشن کی حد میں 50 فیصد سے زیادہ اضافہ کیا تھا تو عدالت کی طرف سے ایک سوال اٹھایا گیا کہ اس پر عمل درآمد سے پہلے ڈیٹا تیار نہیں کیا گیاہے۔چنانچہ نتیش حکومت نے ذات کی بنیاد پرسروے کر اکے اپنے کیل کانٹےپہلے ہی درست کر لیے تھے۔
مانا یہ جا رہا ہے کہ نتیش حکومت کی طرف سے ریاست کی ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں داخلے کا ریزرویشن بڑھائے جانے کے سلسلے میں کارروائی کے لئے جو وقت طے کیا گیا تھا وہ سیاسی نقطۂ نظر سے بہت ہی مناسب تھا۔ ملک اور بعض ریاستوں میں انتخابی ماحول کی وجہ سے حالات پوری طرح سازگار تھے۔ ایسے میں کوئی بھی پارٹی ریزرویشن کے بڑھتے ہوئے فیصد کی مخالفت کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ جب نتیش کمار نے ریزرویشن ترمیمی بل 2023   ایوان میں پیش کیا تو کسی پارٹی کی ہمت نہیں ہوئی کہ اس کی مخالفت کرے۔ بی جے پی نے تو مزید چار فیصد اضافے کا مطالبہ کر ڈالا۔ یعنی ریزرویشن کی بڑھتی ہوئی حد کے بارے میں بی جے پی کی طرف سے تجویز آئی کہ اسے بڑھا کر 69  فیصدکر دیا جائے۔ ظاہر ہے یہ کہہ کر بی جے پی یہ ثابت کرنا چاہتی تھی کہ وہ بھی پسماندہ طبقات کی خیر خواہ ہے۔ حالانکہ نتیش حکومت نے اس معاملے کو بڑی دانشمندی کے ساتھ ہینڈل کیا۔احتیاط اتنی برتی گئی کہ اگر کوئی عدالت جا کر 65 فیصد ریزرویشن پر سوال اٹھائے تو حکومت کے پاس اس کا بھی مدلل جواب ہونا چاہیے۔ مثال کے طور پر ریاستی حکومت کو سروے کی بنیاد پر 65 فیصد کی دلیل مل گئی تھی۔ 15 فیصد اعلیٰ ذاتوں کے لیے مرکزی حکومت کی طرف سے فراہم کردہ 10 فیصد ریزرویشن کو جوڑ نے کے بعدریزرویشن کا مجموعی فیصد 65  ہی ہوتا تھا۔ اس لیے نتیش حکومت نے بھی ریزرویشن کا فیصد صرف 65 ہی رکھا۔ وہ بھی اس لیے کہ اس سلسلے میں اگر کبھی کوئی سوال اٹھتا ہے تو مرکزی حکومت کی طرف سے د ئے گئے ریزرویشن کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ نتیش کمار یہ بھی جانتے تھے کہ پسماندہ اور انتہائی پسماندہ طبقات کی بڑھتی ہوئی تعداد کے مد نظر ریزرویشن کے تناسب میں اضافے کے فیصلے کی کوئی مخالفت نہیں کرے گا۔ ظاہر ہے اب یہ کریڈٹ نتیش کمار کو جائے گا کہ انھوں نے ہی ذات کی بنیاد پر بہار میں سروے کا شعلہ جلایا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں اس نوعیت کی مردم شماری کا چرچا عام ہو گیا۔سیاسی و سماجی مبصرین کی رائے ہے کہ یہ شعلہ اب بجھنے والا نہیں ہے۔
********************