بی جے پی چپ چاپ بیٹھی ہوئی نہیں ہے

تاثیر،۱۲ دسمبر۲۰۲۳:- ایس -ایم- حسن

مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے وزرائے اعلیٰ کے طورپر بالترتیب موہن یادو اوروشنو دیو سائی کی حلف برداری آج ہوگی۔ وزیر اعلیٰ کے طور پروشنو دیو سائی کا انتخاب ان کے قبائلی چہرہ کو دیکھ کر کیا گیا ہے۔جبکہ موہن یادو کو اس لئے وزیر اعلیٰ بنا یا جا رہا ہےکیوں کہ ان کا تعلق یادو برادری سے ہے۔اس انتخاب کے سلسلے میں کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ بی جے پی کا ماسٹر اسٹروک ہے۔ موہن یادو کے بارے میں تو یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی اس چال سے مخالفین کو دنگ کر دیا ہے۔ بہار یوپی میں یادو ووٹوں کی سیاست کرنے والے لیڈر سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ یادو برادری سے تعلق رکھنے والے موہن کی آر ایس ایس سنگھ میں اچھی گرفت ہے۔ ان کے ذریعہ ہی  02024 کےلوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے بہار اور یوپی کو فتح کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔
  قابل ذکر ہے کہ بہار اور یوپی میں دو تجربہ کار لیڈرزیادہ تر یادو ووٹوں کی بنیاد پر کھڑے ہیں۔ بہار میں تیجسوی یادو اور اتر پردیش میں اکھلیش یادو ۔حالیہ سروے کے مطابق بہار میں یادووں کی آبادی 14.26 فیصد ہے۔ یہ بہار کا سب سے بڑا کاسٹ بیسڈ ووٹ بینک ہے۔موہن یادو کو ایم پی کا وزیر بنائے جانے کا مطلب اس ووٹ بینک میں سیندھ لگانا ہے۔ بہار کے یادو ووٹ بینک پر بی جے پی کی پہلے سے ہی نظر ہے۔اسی مقصد سے بہار میں رام کرپال یادو اور نتیا نند رائے کو آگے کیا گیا تھا۔ دونوں بہار میں یادوبرادری کے سرکردہ لیڈر مانے جاتے ہیں۔پارٹی کو اس کا فائدہ 2020 کے اسمبلی انتخابات میںبھی ملا تھا۔ بہار میں یادو ووٹوں کی تقسیم میں ان دو لیڈروں کا اہم رول ہے۔
مدھیہ پردیش میں قانون ساز پارٹی کی میٹنگ میں موہن یادو کو وزیراعلیٰ کے طور پر منتخب کیے جانے کے بعد بہار بی جے پی لیڈر سشیل مودی کا ردعمل کچھ یوں تھا، ’’ آر جے ڈی بہار میں کسی یادو کو وزیراعلیٰ نہیں بنا سکی، لیکن بی جے پی نے یادو کو مدھیہ پردیش میں وزیراعلیٰ بنادیا ہے۔‘‘ تعریف اور طنز کا یہ دور صرف بہار تک ہی محدود نہیں ہے۔یوپی میں بھی بی جے پی لیڈر دلیلوں کے ترکش سے لگاتار طنز کے تیر ایس پی کی طرف پھینک رہے ہیں۔ ایسے میں سیاسی حلقوں میں یہ قیاس آرائی شروع ہوگئی ہے کہ ایم پی کے’’من موہن‘‘ کو آگے کرکے بی جے پی بہا ر اور یوپی کے یادووں کو موہنے میں کتنی کامیاب ہوسکے گی۔یاد رہے موہن یادو مدھیہ پردیش میں وزیر اعلیٰ کے عہدے تک پہنچنے والے دوسرے یادو چہرہ ہیں۔ اس سے قبل 2005 میں بی جے پی نے خود بابولال گوڑ کو وزیراعلیٰ بنایا تھا۔
یوپی کے بارے میں بات کریں تو، ایس پی سربراہ اکھلیش یادو جو بنیادی طور پر یادواورمسلم ووٹ بینک کی بنیاد پر سیاست کرتے  ہیں، 2017 تک وزیر اعلیٰ رہے ۔ اس کے بعد وہ اقتدار سے باہر ہو گئے۔ دوسری طرف رابڑی دیوی بہار میں وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہونے والی آخری یادو چہرہ تھیں،جنھوں نے 2005 میں اپنی کرسی کھو دی تھی۔ جے ڈی یو کے ساتھ اتحاد کے ساتھ 2015 میں نتیش کمار کے چہرے پر ہوئی زبردست جیت میں زیادہ سیٹیں حاصل کر لینےکے بعد بھی، آر جے ڈی نے سی ایم کی کرسی نتیش کمار کے پاس ہی رہنے دی۔ پچھلے سال اگست میں جب نتیش بی جے پی چھوڑ کر دوبارہ آر جے ڈی میں شامل ہوئے تب بھی سی ایم کی کرسی انھی کو ملی۔ تیجسوی یادو یقینی طور پر ڈپٹی سی ایم بن گئے۔
جس ایم پی میں بی جے پی نے موہن یادو کو سی ایم بنایا ہے وہاں یادو ووٹر 8 فیصد بتائے جاتے ہیں۔ یوپی میں یادو ووٹروں کی شرکت 8 فیصد سے 9 فیصد تک ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ ان کا لوک سبھا سیٹوں جیسے مین پوری، اٹاوہ، قنوج، بدایوں، فیروز آباد، اعظم گڑھ، ایودھیا، سنت کبیر نگر، کشی نگر، فرخ آباد اورجونپور وغیرہ پر پورا اثر ہے۔ یہ یوپی میں ایس پی کا سب سے ٹھوس ووٹ بینک ہے۔  لوک سبھا میں اس وقت یادو برادری کے چار ممبران پارلیمنٹ ہیں جن میں دو ایس پی، ایک بی ایس پی اور ایک بی جے پی کا ہے۔ دوسری طرف بہار میں حالیہ کاسٹ بیسڈ سروے کے مطابق یہاں یادووں کی آبادی 14.30 فیصد ہے۔ یہاں سے پانچ یادو لوک سبھا پہنچے ہیں، جن میں نتیا نند رائے کو بھی مودی حکومت میں وزیر بنایا گیا ہے۔ تاہم، یادو کو یہاں لالو پرساد یادو کی آر جے ڈی کا بنیادی ووٹ بینک مانا جاتا ہے۔عظیم اتحاد کی ریاستی حکومت میں 25 فیصد وزراء اسی کمیونٹی سے ہیں۔
2014 کے لوک سبھا انتخابات میں شروع ہونے والی جیت کے سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے او بی سی اور دلتوں سمیت ہر ممکن ووٹ کی جیب میں گھسنے کے لئے بی جے پی نے ہر ممکن کوشش کی ہے۔ ایس پی اور آر جے ڈی کی طاقت سمجھے جانے والے یادووں کو منانے کی کوشش بھی ان میں سے ایک ہے۔ ایم پی میں موہن یادو کو سی ایم بنانا بھی اسی کوشش کا ایک بڑا حصہ سمجھا جا رہا ہے۔ویسے ابھی بی جے پی کا سب سے بڑا چیلنج اور ہدف 2024 کے لوک سبھا انتخابات ہیں۔بی جے پی ہر ایک الیکشن میں اپنا ووٹ شیئر بڑھانے میں کامیاب رہی ہے۔ اس کے پیچھے ہر بار نئے ووٹروں کو راغب کرنے کی ایک مؤثر حکمت عملی ہوتی ہے۔ بی جے پی کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ انتخابات مودی کے چہرے پر ہونے ہیں اور ہماری سب سے بڑی طاقت فائدہ اٹھانے والا ووٹ بینک ہے۔ اس سب کے درمیان پارٹی سماجی  تانے بانے کو بھی درست کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔مانا جا رہا ہے اگر بی جے پی اس بار یادو برادری کے ووٹ بینک میں سیندھ ماری کا دائرہ جزوی طور پر بھی بڑھانے کامیاب ہو جاتی ہے تو بہار میں عظیم اتحاد اور یوپی میںسماجوادی پارٹی کے سامنے سینہ تان کر کھڑی ہو سکتی ہے۔وقت کے انتظار میں بی جے پی چپ چاپ بیٹھی ہوئی بھی نہیں ہے۔
*******