مودی میجک نے کمال کر دیا

تاثیر،۴ دسمبر۲۰۲۳:- ایس -ایم- حسن

گزشتہ ماہ پانچ ریاستوں میں ہوئے اسمبلی انتخابات کے نتائج آ چکے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر ، جو اسے 2024 میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات کا سیمی فائنل سمجھتے تھے، اس وقت حیران رہ گئے جب بی جے پی نے مدھیہ پردیش میں بھاری اکثریت کے ساتھ واپسی کی اور راجستھان کے ساتھ ساتھ چھتیس گڑھ میں کانگریس سے اقتدار چھین لیا۔ تاہم راجستھان میں گزشتہ دو دہائیوں سے یہ روایت رہی ہے کہ وہاں کے لوگ ہر بار اقتدار بدل دیتےہیں۔ راجستھان میںکبھی بی جے پی اور کبھی کانگریس کی حکومتیں بنتی رہی ہیں۔کانگریس اسمبلی انتخابات میں کرناٹک جیسے کرشمے کی توقع کر رہی تھی، لیکن اس کی امیدوں پر پانی پھر گیا ہے۔ظاہر ہے کانگریس اب اپنی شکست کا جائزہ لے گی۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ کانگریس اپنی شکست کے جائزوں سے کبھی کچھ نہیں سیکھتی ہے۔اِدھر ایک خاص نظریہ کے حامل سیاسی تجزیہ کاروں نے کانگریس کی اس شکست کی وجہ مسلمانوں کو خوش کرنے کی پالیسی بتانی شروع کر دی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 2014 میں جب کانگریس اقتدار سے محروم ہوئی تو پارٹی نے اپنے سینئر لیڈر اے کے انٹونی کو شکست کا جائزہ لینے کی ذمہ داری سونپی تھی۔ اے کے انٹونی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ کانگریس نے مسلمانوں کو خوش کرنے کی پالیسی اپنائی جو اس کے لیے مہلک ثابت ہوئی۔ دوسری جانب بی جے پی نے اپنے روایتی ہتھیار ’’ہندوتو‘‘ سے نہ صرف اپنی جیت کو یقینی بنایا بلکہ آگے بڑھنے کا راستہ بھی آسان کر دیا۔ بی جے پی نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بھی زبردست کامیابی حاصل کی تھی۔تاہم، کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے ’’ہندوتو‘‘کے تئیں اپنا نرم رویہ ظاہر کرنے میں کبھی کوئی کمی نہیں کی۔اسکے باوجود ایک خاص تناظر میں، سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کی اس بات کو ’’ ملک کے بجٹ پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے‘‘ اپنے حق میں بھنانے میں کامیاب ہوتی رہی ہے۔ اس پر اس کا’’کٹر ہندتو وادی نظریہ‘‘ اکثر سونے پر سہاسگے کا کام کرتا رہا ہے۔
ملک میں مسلمانوں کی اوسط آبادی 14 فیصد ہے۔ کچھ ریاستوں میں یہ آبادی 25 سے 27 فیصد تک ہے۔بی جے پی کے’’ ہندتو وادی نظریہ‘‘ کی وجہ سے ہی عام طور پر مسلمان اس کو ووٹ نہیں دیتے ہیں۔ کرناٹک انتخابات میں کانگریس اور مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کی جیت کی بڑی وجہ مسلمانوں کے ووٹوں کا بڑا حصہ تھا۔ پہلے مسلم ووٹ مختلف وجوہات کی وجہ سے تقسیم ہوتے تھے، لیکن 2014 کے بعد مسلمان عام طور پر اسی غیر بی جے پی پارٹی امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں،، جس کے جیت کے امکانات نسبتاََ زیادہ ہوتے ہیں۔تلنگانہ میں کانگریس جیت گئی ہے۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں مسلم ووٹروں کی تعداد 13 فیصد ہے۔کرناٹک میں بھی مسلمانوں کی آبادی 13 فیصد ہے۔وہاں کانگریس نے بڑی آسانی کے ساتھ بی جے پی سے اقتدار چھین لیا تھا۔ کیرالہ اور مغربی بنگال میں مسلم ووٹر 27 فیصد ہیں۔ کیرالہ میں بائیں بازو کی پارٹیوں کی حکومت ہے اور مغربی بنگال میں ٹی ایم سی کی ۔ جہاں کہیں بھی مسلم ووٹرز خاصی تعداد میں ہیں، ان کے ووٹوں کا بڑا حصہ غیر بی جے پی پارٹیوں کو ہی جاتا ہے۔یوپی میں 19 فیصد مسلم آبادی کے باوجود بی جے پی کا غلبہ برقرار ہے کیونکہ اس نے’’ ہندوتو‘‘ کے سہارے اپنے ہندو ووٹروں کو متحرک کیا ہے۔بی جے پی کے اس حربے نے اس کی بڑی مدد کی ہے۔ ذاتوں اور ذیلی ذاتوں میں بٹے ہوئے 80 فیصد ہندو ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے میں اسے کامیابی ملی ہے۔
بہار کی بات کی جائے تویہاں کی نتیش حکومت پر بھی مسلمانوں کو خوش کرنے کی پالیسی اپنانے کا الزام بی جے پی لگاتی رہی ہے۔ بی جے پی کی مسلم مخالف پالیسیوں کی حمایت کرنے والوں کا یہ بھی الزام ہے کہ 2005 سے 2015 کے اسمبلی انتخابات میں نتیش کمار کو مسلمانوں کو خوش کرنے کا خوب فائدہ ملا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ نتیش کمار کےطویل عرصے تک بی جے پی کے ساتھ رہنے کے باوجود مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ان کے ساتھ رہا ہے اور آج بھی ہے۔اِدھر کانگریس بھی اب یہ محسوس کرنے لگی ہے کہ مسلمانوں کی حمایت کے بغیر وہ کچھ بھی نہیں کر سکتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ کرناٹک اور تلنگانہ میں اس کی کامیابی ہے۔ تلنگانہ میں کانگریس پہلی بار اقتدار میں آئی ہے۔ اس نے دو ریاستوں میں اقتدار کھو دیا ہے۔ظاہر ہےعوامی مفاد سے جڑے اس کے وعدوں پر اکثریت نے توجہ نہیں دی ہے۔ اس کے بر عکس بی جے پی نے اپنے ’’ہندتو وادی ہتھیار ‘‘ کا خوب استعمال کیا اور اسے زبر دست کامیابی ملی۔اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ساتھ ملک کی نظریں بھی پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات پر جمی ہوئی تھیں۔ بی جے پی نے ا ن ریاستوں میں کسی بھی وزیر اعلیٰ کے چہرے کو سامنے نہیں رکھا۔ نریندر مودی کے نام پر ووٹ مانگے گئے۔ اس کی نظر لوک سبھا انتخابات پر بھی تھی ۔اسمبلی انتخابات میںجیت کے بعد نریندر مودی کا راستہ 2024 میں بھی ہموار نظر آ رہا ہے۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حالیہ اسمبلی انتخابات میں مودی میجک نے کمال کر دیا ہے۔یہ کمال لوک سبھا انتخابات میں بھی نظر آئے گا۔