تاثیر،۱۴ دسمبر۲۰۲۳:- ایس -ایم- حسن
اسلام دین ِفطرت ہے ۔ اس نے انسان کے انفرادی معاملات کے ساتھ ساتھ اجتماعی شعور اور معاشرتی آگہی کو بھی ملحوظ رکھا ہے ۔ اسلام انسانوں کے باہمی میل جول سے پیدا ہونے والی اجتماعیت اور معاشرت کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ اس کی نشو ونما میں بھر پور معاونت بھی کرتا ہے۔اسلام کے معاشرتی نظام کے کچھ بنیادی اُصول ہیں، جن پر سارا معاشرتی ڈھانچہ استوار ہے۔ اسلام کا دعویٰ ہے کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کیلئے جن اُصولوں کی ضرورت تھی وہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو سمجھادئے ہیں، اسے جس بنیادی فکر اور جس رہنمائی کی ضرورت تھی وہ رب العالمین نے مہیا کر دی ہے۔ اب اسلام ہم سے ایک ایسا معاشرہ چاہتا ہے، جس میں خیر و شر کے پیمانے متعین ہوں، کیوں کہ جس معاشرے میں باہمی خیر کے قیام اور شر کو مٹانے کی سعی نہیں ہوتی وہ معاشرے بالآخر نسبت و نابود ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ اسلام نے سب سے پہلے ان اُمور کی نشاندہی کی ہے، جو معاشرے کیلئے مہلک ثابت ہوتے ہیں۔
ہر قوم اور ملت کا اپنا ایک مخصوص معاشرتی نظام اور اپنی ایک منفرد تہذیب ہے، جس کے ذریعے اس کی قومی شناخت اور ملی تشخص قائم رہتا ہے۔ اس کا معاشرہ شکست و ریخت اور دوسری تہذیبوں میں جذب ہونے سے محفوظ رہتا ہے۔ اسلامی آداب و اخلاقیات سے انسان پہچانا جاتا ہے۔ ان سے عاری شخص اندر سے کھوکھلا اور ہیجانی کیفیت کا شکار ہوتا ہے، جس کا نقصان اس کو خود بخود پہنچتا رہتا ہے۔ اسلامی آداب و اخلاقیات حسن معاشرت کی بنیاد ہیں۔ ان کے پانے سے انسانی حسن برقرار رہتا ہے۔ حسن اخلاق کی اہمیت اسی سے دوچند ہو جاتی ہے کہ ہمیں احادیث مبارکہ سے متعدد ایسے واقعات ملتے ہیں، جن میں عبادت و ریاضت میں کمال رکھنے والوں کے اعمال کو صرف ان کی اخلاقی استواری نہ ہونے کی بنا پر رائیگاں قرار دے دیا گیا۔
حسن اخلاق سے مراد گفتگو اور رہن سہن سے متعلقہ اُمور ہیں، جن کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، انسان کی اپنے دوسرے ساتھی سے گفتگو میں حسن ظن اورعمدگی نہ ہو تو انسان بد اخلاقی کی مثال بن جاتا ہے۔۔ دوسروں پر جھوٹا رعب اور دولت و شہرت کے نشے میں شب و روز مبتلا رہنا انسان کا طرز عمل بن چکا ہے۔ اسلامی تہذیب و تمدن کے تمام تر پہلوئوں کو اپنانا اخلاق کی کامل ترین صورت ہے۔فطری طور پر ہر انسان پر ہر انسان کی ضروریات وابستہ ہو تی ہیں۔ اس لئے خوشگوار اور آرام دہ زندگی اس کی ہو تی ہے ،جس کی بود و باش سلیقہ مند لوگوں کے درمیان ہو ۔اسلام ہم سے اسی طرح کے صحتمند معاشرے کا متقاضی ہے۔
اسلام کا جو معاشرتی نظام ہے اس کی اصل اساس و بنیاد عقیدۂ توحید ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں رب کے سوا کسی کی بندگی نہیں ہونی چاہئے۔ قانون صرف اسی کا چلے گا ۔اللہ کے بنائے ہوئے معاشرتی اور عائلی قوانین میں کسی کو ترمیم کا اختیار نہیں ہونا چاہئے ۔ اسلامی معاشرے میں کسی ایسے اقدام کی کوئی گنجائش نہیں ہے، جس سے شرک یا شرکیہ تصورات کو فروغ ملتا ہو، گویا اسلامی معاشرے کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ مکمل طور پر چوکس رہے کہ شرک کی کوئی آلائش اس میں پنپنے نہ پائے۔ اسلام ایک ایسے معاشرتی نظام سے ہمیں متعارف کراتا ہے، جو اپنی گوں نا گوں خصوصیات کی بدولت دنیا کے تمام معاشرتی نظاموں سے مختلف اور منفرد ہے۔ اسلام کا معاشرتی نظام خیرو اصلاح ، طہارت و تقدس ، ہمدردی و خیر خواہی اور اعتدال و توازن پر قائم ہے۔ اس نظام میں انسان کی انفرادی اور اجتماعی بہبود کا پورا بندو بست ہے۔ آج ہمارے معاشرے میںقوت برداشت کا حد درجہ فقدان ہے، بے راہ روی، بدکرداری، بد اخلاقی، رشوت خوری، سود خوری اور لوٹ کھسوٹ جیسی بیماریاں راہ پا گئی ہیں۔یہ صورتحال کسی صاحب بصیرت اور اصحاب فکر و تدبیر کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ہے۔ مغربی کلچر و تہذیب کے دلدادہ نوجوان فرائض سے غافل، جھوٹ، چغلی، آپس میں اختلافات و تنازعات میں اس قدر محو ہیں کہ انھیں سود و زیاں کا احساس تک نہیں رہ گیا ہے۔ ہائے افسوس ! جس اُمت کو خیر اُمت کے نام سے یاد کیا جا تا ہے، آج وہی قوم اپنے اسلاف کی مقدس تاریخ کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ حضور اقدسؐ کی سیرت طیبہ کے پاکیزہ نقوش کو فراموش کر چکی ہے۔ ہم نے اُن کے بتائے ہوئے راستوں سے الگ اپنی پسند کے راستے اختیار کر لئے ہیں۔ اسی لئے آج ہمارا ہر جگہ ذلت و پستی سے سامنا ہے ۔
اسلامی معاشرتی نظام ایسے طرززندگی کا حامی ہے، جس میں اعلیٰ و ادنی کیلئے مساوی حقوق کا حکم ہے ۔یہ نظام تمام انسانوں کیلئے خوشحالی کا ضامن ہے۔ مخصوص افراد کے ہاتھوں میں تمام دولت کے جمع ہونے کے نظام کو مسترد کرتا ہے اور معاشی و اقتصادی ساکھ کو بہتر بنا کر پورے عالم انسانی کے لئے امن، سلامتی اور خوشحالی کا سبیل پیدا کرتا ہے، لیکن ہم نے اس نظام کو ترک کردیا ہے۔ نتیجتاََ پورا معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہو گیا۔ بحیثیت مسلمان ہمیں یہ کامل یقین ہے کہ حضرت محمدﷺؐ کے بعد قرآنی تعلیمات کی روشنی میں اب اپنی رہنمائی ہمیں خود کرنی ہے۔بحیثیت اللہ تعالیٰ کے نائب اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور معاشرے کی فلاح و بہبود کیلئے خاطر خواہ کردار ادا کریں ۔ اس مقصد کا حصول نہ اشتراکی نظام سے ممکن ہے اور نہ ہی سرمایہ دارنہ نظام سے بلکہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ دین اسلام سے ہی امن و سلامتی ، فلاح و بہبود، بھائی چارگی، بہتر اقتصادی اور معاشی ترقی کا حصول ممکن ہے۔
****************