تاثیر،۲۷ دسمبر۲۰۲۳:- ایس -ایم- حسن
علی گڑھ ،27 دسمبر، ضیاء الرحمن)البرکات اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ علی گڑھ میں خلیفہ اول،امیرالمومنین سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں حضرت سید محمد امان میاں قادری دام ظلہ العالی(ڈائریکٹر البرکات اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ علی گڑھ) کے زیر صدارت ایک محفل کا انعقاد کیا گیا،
محفل کا آغاز مولانا قاری محمد انس کی تلاوت سے ہوا پھر مولانا ابوالبرکات مصباحی نے نعت پاک اور مولانا خالد رضا احسنی نے منقبت کے نذرانے پیش کیے۔
پھر مقرر خصوصی حضرت مولانا ڈاکٹرسید نور عالم مصباحی(خطیب و امام مسجد البرکات، علی گڑھ)نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حیات طیبہ کے چند اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی ۔آپ نے گفتگو کے آغاز میں کہا کہ آج ہم جس شخصیت کا ذکر کرنے کے لیے بیٹھے ہیں،ان کا ذکر کرنا حضورﷺ کی سنت ہے۔آپ نے خود بھی حضرت ابو بکر کا ذکر کیا اور حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اے حسان میرے ابو بکر کی شان میں کچھ کہو تو حضرت حسان نے اشعار میں حضرت ابو بکر کی شان بیان کی۔ تو نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم خوش ہوگئے اور تبسم فرمایا،
حضرت ابو بکر صدیق کو مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے کا شرف حاصل ہے۔آپ اسلام کے پہلے خلیفہ ہیں۔ آپ نے اپنی پوری زندگی نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور دین کی سربلندی کے لیے وقف کر دی ۔ہجرت کی رات آپ کو حضورﷺ کی رفاقت کا شرف حاصل ہوا،اس رات حضورﷺ کی حفاظت میں آپ نے جو اقدامات کیے وہ محبت رسول کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ آپ کی دوستی بھی دنیا والوں کے لیے ایک نمونہ تھی،دین اسلام کی خاطر آپ نے اپنی جان، مال اور اولاد سب کو قربان کر دیا، آپ کی جاں نثاری رہتی دنیا تک یاد کی جائے گی۔
آپ تمام سفر و حضر میں ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہے۔حضورﷺ نے اپنی علالت کے دوران آپ کو مسجد نبوی میں امامت کا حکم دیا۔ حضورﷺ کے وصال ظاہری کے بعد صحابہ کرام پر جیسے غموں کے پہاڑ ٹوٹ گئے تھے لیکن اس وقت حضرت ابوبکر نے پوری امت کو سہارا دیا اور عوام کے سامنے ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس سے صحابہ کرام کے دل مطمئن ہوئے۔ پھر سقیفہ بنو ساعدہ میں خلافت کے مسئلہ پر بحث ہونے لگی حضرت ابو بکر تشریف لے گئے اور آپ نے لوگوں کو ایک قرشی خلیفہ پر متحد کیا پھر صحابہ کرام نے متفقہ طور پر آپ کی بیعت کی اور آپ اسلام کے پہلے خلیفہ بنے ۔جس وقت آپ نے خلافت کی باگ ڈور سنبھالی، اس وقت عرب میں ہر طرف بغاوتوں کا سیلاب جاری تھا ۔ حضورﷺ کے وصال کے بعد عرب کی ایک بڑی جماعت مرتد ہوگئی، بعض نے زکات کا انکار کیا اور جھوٹے مدعیان نبوت نے اسلام کے شیرازے کو بکھیرنے کی کوشش کی لیکن حضرت ابو بکر نے اپنی حکمت عملی سے تمام فتنوں کا خاتمہ فرمایا اور امت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع فرمایا۔ ساری زندگی محبت رسول ﷺ میں وقف کرنے کے بعد آپ کو اس کا سب سے بڑا صلہ یہ ملا کہ آپ آج بھی حضورﷺ کے پہلو میں آرام فرما ہیں۔
ہم سب کو چاہیے کہ اس عظیم ہستی ذکر کریں، ان کے چرچے کریں اور دین اسلام اور پیغمبر اسلام کی خاطر ان کی قربانیوں اور احسانات کو یاد کریں، اور ان کے ذکر سے اپنے ایمان کو جلا بخشیں،
پھر آخر میں حضرت شیخ نعمان احمد ازہری ( أستاذ البرکات اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ علی گڑھ) کی دعاؤں پر محفل کا اختتام ہوا۔
مولانا کاشف احمد جامعی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ان کے علاوہ اس محفل میں ڈاکٹر سلمان رضا علیمی، مفتی عبد المصطفی مصباحی، مولانا ساجد نصیری،مولانا عارف رضا نعمانی،مفتی جنید برکاتی، مولانا احمد حسن سعدی امجدی، جناب عرفان برکاتی اور ادارے کے تمام کےتمام طلبہ موجود رہے۔