تاثیر،۱۸ دسمبر۲۰۲۳:- ایس -ایم- حسن
واشنگٹن، 18 دسمبر: امریکہ نے اسرائیل سے غزہ پٹی میں فلسطینی جنگجو تنظیم حماس کے ساتھ جنگ میں تحمل سے کام لینے کی اپیل کی ہے ۔ اسرائیل امریکہ کے اس دباو سے بے فکر ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو نے دنیا کو واضح پیغام دیا ہے۔ انہوں نے غزہ میں ‘آخر تک لڑنے’ کے اپنے عہد کا اعادہ کیا ہے۔
معروف امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے غزہ میں ‘آخر تک لڑنے’ کے عزم کا اظہار کیا ہے، کیونکہ گزشتہ ہفتے تین اسرائیلی یرغمالیوں کی ہلاکت پر ان کے ملک میں غم و غصہ پھیل رہاہے۔ یرغمالیوں کو غلطی سے اسرائیلی فورسز نے گولی مار دی تھی۔ یہ یرغمال سفید پرچم لہرا رہے تھے۔ ان کی موت نے نئے سوالات کو جنم دیا ہے کہ نیتن یاہو کی حکومت جنگ کیسے چلا رہی ہے۔
اس امریکی اخبار نے اپنی ویب سائٹ پر اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ اس کے مطابق نیتن یاہو نے کل ایک خط پڑھ کر حکومتی میٹنگ کا آغاز کیا۔ انھوں نے کہا،’یہ خط غزہ میں لڑتے ہوئے مرنے والے اسرائیلی فوجیوں کے اہل خانہ کی طرف سے آیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ تمہارے پاس لڑنے کا مینڈیٹ ہے۔ آپ کو درمیان میں رکنے کا حکم نہیں ہے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ حالانکہ یہ خط غزہ میں ابھی بھی یرغمال بنائے گئے اسرائیلی شہریوں کے رشتہ داروں کے پیغام سے میل نہیں کھاتا۔ ان میں سے بہت سے لوگ جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر اتر آئے ہیں تاکہ ان کے پیارے وطن واپس آ سکیں۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن رواں ہفتے مشرق وسطیٰ کا دورہ کر رہے ہیں۔ ان میں اسرائیل اور خلیج فارس کے تین ممالک شامل ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ اسرائیل پر دباو ڈال رہی ہے کہ وہ چند ہفتوں میں بڑے پیمانے پر زمینی اور فضائی مہم کو ختم کرے۔
امریکی حکام کے مطابق توقع ہے کہ آسٹن اسرائیلی رہنماوں کے ساتھ اسپیشل فورسز کے چھوٹے گروپوں کے استعمال پر بات چیت کریں گے۔ یہ گروپ حماس کے کمانڈروں کو ڈھونڈنے اور مارنے، یرغمالیوں کو بچانے اور سرنگوں کو تباہ کرنے کے لیے مزید درست کارروائیاں شروع کریں گے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ جرمنی اور برطانیہ نے بھی اسرائیل کے لیے اپنی سابقہ مکمل حمایت میں بڑی تبدیلی کرتے ہوئے ‘مستقل جنگ بندی’ کی وکالت کی۔
نیویارک ٹائمز نے غزہ کی وزارت صحت کے حوالے سے بتایا کہ مرنے والوں کی تعداد 20,000 کے قریب پہنچ رہی ہے۔ ان میں ایک ہی خاندان کے 100 سے زائد افراد شامل ہیں۔