ایم پی حکومت کے پاس شاید کوئی جواب نہیںہے

تاثیر،۲۴ دسمبر۲۰۲۳:- ایس -ایم- حسن

مدھیہ پردیش حکومت کے لیے لوک سبھا انتخابات سے پہلے الیکشن جیتنے کے لیے کیے گئے عوامی وعدوں کو پورا کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ ایک طرف عوام اور اپوزیشن کی جانب سے حکومت پر وعدے پورے کرنے کا دباؤ ہے دوسری طرف ریاست کی معاشی حالت بھی ابتر ہے۔ حالات ایسے ہیں کہ موہن یادو حکومت کو اقتدار سنبھالتے ہی آر بی آئی سے قرض لینے کی ضرورت پڑگئی ہے۔شاید یہی وجہ ہے  کہ حلف لینے کے دو ہفتے کے اندر، مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ موہن یادو نے ریاست کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی( سے 2,000 کروڑ روپے کا قرض مانگا ہے۔ سننے میں آ رہا ہے کہ مدھیہ پردیش قرضوں کے بوجھ تلے بری طرح سے دبا ہوا ہے۔ دراصل مدھیہ پردیش کے موجودہ وزیر اعلی موہن یادو کو سابق وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان کی حکومت سے تقریباً 4 لاکھ کروڑ روپے کا قرض وراثت میں ملا ہے۔
  سابق وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان کی جس ’’لاڈلی بہن یوجنا ‘‘ کو بی جے پی کی بڑی جیت کی وجہ سمجھا جاتا ہے، اس کے لئے ریاست کو بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ دراصل شیوراج سنگھ چوہان حکومت نے 2023 میں ہی 44000 کروڑ روپے کا قرض لیا تھا۔ اس میں انتخابی ضابطہ اخلاق کے نفاذ کے دوران لیا گیا 5000 کروڑ روپے کا قرض بھی شامل ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا بڑا حصہ ’’لاڈلی بہن یوجنا ‘‘ پر خرچ ہوا تھا۔ اب نئی حکومت کے آنے کے بعد ریاستی حکومت کا خزانہ خالی ہے۔ ساتھ ہی اس کے پاس انتخابی وعدوں کی ایک لمبی فہرست بھی ہے۔ ایسے میں بی جے پی کو ڈر ہے کہ اگر ا ن وعدوں کو پورا نہیں کیا گیا تو اس کا لوک سبھا انتخابات پر برا اثر پڑے گا اور اگر انھیں پورا کیا گیا تو ریاست اس سے بھی بڑے قرضوں کے بوجھ تلے دب جائے گی۔ تاہم، وزیر اعلیٰ موہن یادو نے اسمبلی میں کہا ہے’’ریاست میں کوئی معاشی بحران نہیں ہے۔ فنڈز کی کمی کی وجہ سے کوئی فلاحی اسکیم نہیں رکے گی۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اسکیموں کو روک دیا جائے گا، لیکن ایسا کرنا ٹھیک نہیں ہوگا۔ یہ ایک غیر ضروری خوف ہے۔ ’’لاڈلی بہن یوجنا ‘‘ سمیت کسی بھی اسکیم کو نہیں روکا جائے گا۔ بی جے پی کا منشور رامائن اور گیتا جیسا ہے۔ ‘‘وزیر اعلی موہن یادو کا دعویٰ ہے کہ تمام نئے وعدوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ پچھلی حکومت کے تمام منصوبوں کو بھی جاری رکھا جائے گا۔
  دوسری طرف اپوزیشن کانگریس نے ریاست پر بڑھتے ہوئے قرض کو لے کر حکومت کو الرٹ کر دیا ہے۔ پارٹی کے ترجمان عباس حفیظ کا کہنا ہے ’’ مدھیہ پردیش کا ہر شہری قرض میں ڈوبا ہوا ہے۔مدھیہ پردیش میں پیدا ہونے والا ہر بچہ اب 40,000 روپے کا مقروض ہے۔ ان کا الزام ہے کہ بی جے پی مسلسل مدھیہ پردیش کو دیوالیہ پن کی جانب دھکیل رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان کا یہ سوال ہے کہ آخر وہ کب سمجھیں گے؟  اگر کانگریس اقتدار میں آتی تووہ ریونیو پیدا کرنے کے نئے ذرائع تلاش کرنے کی کوشش کرتی‘‘۔مدھیہ پردیش کےسابق وزیر اعلیٰ دگ وجے سنگھ تو ریاست کے حالیہ اسمبلی انتخابات کے پہلے سے یہ بات کہتے رہے ہیں کہ ان کے دور اقتدار کے اختتام پر مدھیہ پردیش پر 23,000 کروڑ روپے کا قرض تھا، لیکن بعد میں آنے والی بی جے پی حکومتوں کے بدعنوان طرز عمل کی وجہ سے یہ قرض بڑھ کر4 لاکھ کروڑ ہو گیا۔آج بھی ان کا الزام ہے’’ ان لوگوں (بی جے پی) نے پچھلے کئی سالوں میںلوٹا ہے۔ جب میں چلا گیا تو مدھیہ پردیش پر صرف 23,000 کروڑ کا قرض تھا۔ اب ریاست پر 4 لاکھ کروڑ روپے کا قرض ہے۔ انہوں نے کیا کام کیا؟ کوئی تفصیلات دستیاب نہیں ہیں‘‘ ۔ الکشن کے قبل دگوجے سنگھ نے کہا تھا’’ اگر کانگریس حکومت بناتی ہے تو ہر چیز کی جانچ کی جائے گی۔ گھوٹالے میں ملوث ہر شخص کو تحقیقات کا سامنا کرنا پڑے گا اور اسے سبق سکھایا جائے گا۔‘‘ اس وقت دگ وجے سنگھ نے جمہوریت اقدار کے تحفظ اور پنچایتی راج کے نفاذ کے حوالے سے ڈھیر ساری دلیلوں کے حوالے سے بی جے پی کو ہرانے اور کانگریس کو ریاست کی باگ ڈور سونپنے کی اپیل عوام سے کی تھی، لیکن دنیا نے دیکھا کہ ان کی اپیل کا کوئی اثر مدھیہ پردیش کے عوام پر نہیں پڑا اور کانگریس کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔اس سے بی جے پی کے سینے کا چوڑا ہو جانا فطری ہے۔یہ بات مدھیہ پردیش کے  نائب وزیر اعلیٰ جگدیش دیوڑ ا کے اس بیان سے منعکس ہوتی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ’’کانگریس کو قرض کے معاملے میں حکومت پر تنقید کرنے کی بجائےاپنی شرمناک ہارکا تجزیہ کرنا چاہئے۔ اگر ہمیں قرض لینے کی ضرورت پڑی تو ہم سڑکوں کی تعمیر اور آبپاشی پراجکٹس جیسے ترقیاتی کاموں کے لیے قرض لیں گے۔ ریاست کی سابقہ کانگریس حکومتوں نے بھی قرض لیا تھا، لیکن اس کا استعمال ترقیاتی کاموں میں نہیں کیا،انھوں نے رقم کی ہیرا پھیری کی‘‘۔ نائب وزیر اعلیٰ جگدیش دیوڑ ا کے اس بیان کو ’’ میں ہی درست ہوں جیسی خود فریبی ‘‘ کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ کانگریس نے جو سوال اٹھایا ہے اس کا جواب ایم پی حکومت کے پاس شاید اس کے علاوہ کچھ ہے بھی نہیں۔
*****************