دْنیا ساتھ دے نہ دے، ہم حماس کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے: اسرائیل

تاثیر،۱۴ دسمبر۲۰۲۳:- ایس -ایم- حسن

تل ابیب ،14دسمبر: اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن نے زور دے کر کہا ہے کہ اس مرحلے پر جنگ بندی پر اتفاق کرنا ایک غلطی ہوگی اور اسرائیل عالمی برادری کی حمایت کے ساتھ یا اس کے بغیر حماس کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے گا۔کوہن نے کہا کہ “اسرائیل حماس کے خلاف جنگ جاری رکھے گا، چاہے بین الاقوامی حمایت ملے یا نہ ملے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ مرحلے پر جنگ بندی حماس دہشت گرد تنظیم کے لیے ایک تحفہ ہو گی اور اس سے اسرائیل کی آبادی کو دوبارہ خطرہ لاحق ہو گا”۔رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق کوہن نے بین الاقوامی برادری سے عالمی جہاز رانی کے راستوں کی حفاظت کے لیے “مؤثر اور فیصلہ کن طریقے سے” کام کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔اسی حوالے سے اسرائیلی وزارت خارجہ کے ترجمان لیور بین ڈور نے کہا کہ امریکا اب بھی غزہ میں جنگ جاری رکھنے کے لیے “واضح” طور پر ہمارے ساتھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدر جو بائیڈن کے بیانات جن میں انہوں نے اسرائیلی حکومت پر تنقید کی تھی کے باوجود امریکا جنگ میں ہمارے ساتھ ہے۔ ہمیں امریکا سے صرف مشورہ درکار ہے اور وہ ہمیں مل رہا ہے۔بین ڈور نے مزید کہا کہ “ہمیں امریکی انتظامیہ کے جامع الفاظ کو دیکھنا چاہیے، کیونکہ وہ اب بھی غزہ میں دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں اسرائیل کو واضح گرین سگنل دے رہا ہے۔ وہ اسرائیل کو وہ تمام جنگی وسائل فراہم کر رہا ہے جس کی اسے ضرورت ہے۔ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اہمیت اور غزہ میں دہشت گردی کے گڑھوں کو ختم کرنے کی اہمیت سے آگاہ ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ امریکا جانتا ہے کہ مستقبل کے سیاسی منصوبوں، ممکنہ سیاسی حل اور غزہ میں مستقبل کے انتظامات اور آباد کاری کے بارے میں کوئی بھی بات چیت حماس کے فوجی اور آمرانہ خاتمے کے بغیر ممکن نہیں ہو گی”۔بین ڈور نے بائیڈن کے بیانات کو تنقید کے طور پر بیان کرنے سے گریز کیا اور کہا کہ وہ “اسرائیل کو مشورے فراہم کرنے کی امریکا کی خواہش سے آئے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ “امریکا ہمیں مشورہ دیتا ہے ڈکٹیشن نہیں دیتا، کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ اسرائیل اس جنگ کے مقاصد حاصل کرے اور وہ ان تمام مقاصد کی حمایت کرتا ہے۔”اسرائیلی وزارت خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ “امریکا یہ چاہتا ہے کہ ہم سب اس مشن میں کامیاب ہوں، نہ صرف اسرائیل یا امریکی انتظامیہ کے لیے، بلکہ ان فلسطینیوں کی خاطر جو حماس اور اسلامی جہاد سے تنگ ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ “امریکا کہ اس فلسطینی کیمپ کو مضبوط کرنا چاہتا ہے جو تنازع کا حل چاہتا ہے۔ نہ صرف اسرائیل اور امریکا کی خاطر بلکہ ان عرب ممالک کی خاطر جو سلامتی اور استحکام چاہتے ہیں۔ وہ خطے میں دہشت گرد تنظیموں کی صلاحیتوں کو کم کرنے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں”۔بین ڈور نے جنگ بندی کے حق میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس قرارداد کی کوئی اہمیت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسرائیل نے بین الاقوامی حمایت کھو دی ہے۔انہوں نے کہا کہ “جنرل اسمبلی میں 53 اسلامی اور عرب ممالک شامل ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ ایک تہائی سے زیادہ ممبران مسلمان اور عرب ممالک ہیں۔ وہ ویسے ہی اسرائیل کے خلاف ووٹ دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ غیر وابستہ ممالک شامل ہوتے ہیں جن کا موقف پہلے سے معلوم ہوتی ہے”۔قابل ذکر ہے کہ بائیڈن نے کل منگل کو خبردار کیا تھا کہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر اندھا دھند بمباری کی وجہ سے عالمی برادری کی حمایت کھونا شروع کر دی ہے۔ انھوں نے نیتن یاہو سے بھی اپنے طرز عمل اور اپنی حکومت کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی تاریخ کی سب سے قدامت پسند حکومت نے کہا کہ وہ دو ریاستی حل نہیں چاہتی۔