تاثیر،۳ جنوری۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
انڈیا اتحاد کی میٹنگ میں ممتا بنرجی نے ملیکارجن کھرگے کو وزیراعظم کا چہرہ بنائے جانے کا مشورہ دیا تو اروند کجریوال نے اس کی حمایت کی ۔ ممتا کی تجویز سے حزب اختلاف میں تفریق پیدا ہو سکتی تھی ۔ لیکن کھرگے نے میڈیا کو دیئے بیان میں یہ کہہ کر بات کو بگڑنے سے بچا لیا کہ ہماری پہلی کوشش الیکشن جیتنے کی ہے ۔ وزیراعظم کے نام کا فیصلہ بعد میں ساتھیوں کے مشورہ سے کیا جائے گا ۔ اس میٹنگ میں سیٹوں کی تقسیم کا فارمولہ طے کرنے کے لئے چھ رکنی کمیٹی بنائی گئی ۔ جسے مثبت پہل کے طور پر دیکھا گیا ۔ حزب اختلاف کے ریجنل لیڈر انڈیا اتحاد کا حصہ تو بننا چاہتے ہیں، لیکن ریاست میں کانگریس کا اثر بڑھنے سے ڈرتے ہیں ۔ یہ ڈر الگ الگ شکلوں میں سامنے آ رہا ہے ۔ ممتا بنرجی نے مغربی بنگال میں کانگریس کو تین سیٹیں دینے کی بات کہی، وہیں نتیش کمار کے ناراض ہونے کی خبریں میڈیا میں آتی رہیں ۔ حالانکہ وہ ان خبروں کی تردید کرتے رہے ۔ مگر انڈیا اتحاد میں نتیش کمار کو اہم ذمہ داری دینے کی مانگ رہ رہ کر سامنے آ رہی ہے ۔ ذریعہ کے مطابق نتیش کمار کو انڈیا اتحاد کا معاون کوارڈینیٹر بنانے کی خبر ہے ۔ یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ کانگریس اپنی اتحادی حکومتوں کی کارکردگی پر بات نہیں کرتی ۔ جبکہ راہل گاندھی نے کانگریس کے 139 ویں یوم تاسیس پر اپنی تقریر میں بار بار انڈیا کا ذکر کیا ۔ تیاری کے لحاظ سے انڈیا اتحاد بہت پیچھے چل رہا ہے ۔ پارلیمانی انتخابات میں تین ماہ سے بھی کم کا وقت بچا ہے ۔ لیکن ابھی تک سیٹوں کا فیصلہ نہیں ہو سکا ہے ۔ اترپردیش میں اکھلیش یادو کانگریس کو زیادہ سیٹیں دینے کے موڈ میں نہیں ہیں ۔ مایاوتی انڈیا اتحاد سے دور ہیں ۔ اویسی چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ مل کر تیسرا مورچہ بنانے کی قواعد میں لگے ہیں ۔ عام آدمی پارٹی دہلی اور پنجاب میں کانگریس کو حاشیہ پر رکھنا چاہتی ہے ۔ ایسے میں سیٹوں کا فیصلہ کرنے میں مشکل آنے والی ہے ۔ یہاں سوال یہ بھی ہے کہ سیٹوں پر جو بھی فیصلہ ہوگا کیا زمینی سطح کے عآپ اور کانگریس کے کارکن اسے مانیں گے؟ کیا پارٹی اپنے ووٹ اتحادی امیدوار کو ٹرانسفر کرا پائے گی؟ بہار اور مہاراشٹر میں بھی سیٹوں کو لے کر پینچ پھنس سکتا ہے ۔ انڈیا اتحاد ایک دوسرے سے جڑنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے ۔ جبکہ بحران مدعوں کے ذریعہ عوام سے جڑنے کا ہے ۔ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں انڈیا اتحاد کے ساتھی ایک دوسرے کا معاون بننے کے بجائے ووٹ کاٹتے دکھائی دیئے ۔ یہی صورتحال لوک سبھا الیکشن میں بھی ہو سکتی ہے اگر سیٹوں کی تقسیم، منیمم کامن پروگرام اور مدے وقت رہتے طے نہیں ہوئے ۔ اتحاد میں شامل سبھی جماعتوں کے مکھیا وزیراعظم بننے کی خواہش رکھتے ہیں ۔ اسی لئے کون بنے گا وزیر اعظم کی فضول بحث شروع ہو جاتی ہے ۔ اس سے برسراقتدار جماعت عام لوگوں کو یہ بتانے میں کامیاب ہو جاتی ہے کہ یہ ملک اور ان کے مسائل کو لے کر سنجیدہ نہیں ہیں ۔ اپوزیشن اپنی حماقت سے بار بار یہ موقع دیتی ہے ۔ سپریم کورٹ کے سابق جج سنجے کشن کول کا کہنا ہے کہ سرکار کو سیاسی طور پر کورٹ ہینڈل نہیں کر سکتا، عدلیہ اپوزیشن کی جگہ نہیں لے سکتی، اپوزیشن کو اپنا کام کرنا ہی ہوگا ۔ یعنی اسے عوام کے سوال سنجیدگی سے اٹھانے ہوں گے ۔ یہ بتانا ہوگا کہ ملک کی معیشت کس طرح پٹری سے اتر گئی، مہنگائی کیوں بڑھی، بے روزگاروں اور غریبوں کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ کیوں ہو رہا ہے ۔ سماجی انحطات کی وجہ کیا ہے، خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے وغیرہ ۔ ان مسائل سے وہ کیسے نجات دلا سکتی ہے ۔ انڈیا اتحاد ابھی تک ایسا کوئی ایجنڈہ سیٹ نہیں کر پایا ہے ۔ جبکہ بی جے پی نے مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتس گڑھ میں وزیر اعلیٰ اور وزیروں کے ذریعہ اپر کاسٹ، او بی سی اور آدی واسیوں کو سادھنے کی کوشش کی ہے ۔ وہ پارلیمانی انتخاب اپنی نام نہاد ترقی اور رام مندر تک محدود کرنے میں جٹی ہے ۔ اس میں سماجی تقسیم اور ہندوؤں کی بالا دستی کا چھونک لگایا جا سکتاہے ۔ بی جے پی پانچ میں سے تین راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتس گڑھ کی جیت کو لوک سبھا میں جیت کی گارنٹی بتا رہی ہے ۔ بی جے پی کا حوصلہ بلند ہے وہ اپنے دم پر 350 سیٹیں جیتنے کا دم بھر رہی ہے ۔ این ڈی اے کے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس کا 400 پار پہنچنے کا ہدف ہے ۔ “وکست بھارت” یاترا کے ذریعہ بی جے پی مرکزی و ریاستی سرکاروں کی فلاحی اسکیموں سے فائدہ اٹھانے والوں کے درمیان مضبوط پکڑ بنانے میں جٹی ہے ۔
اس مہم کے ذریعہ بی جے پی اپنے ووٹ بینک میں 5 سے 10 فیصد کا اضافہ کرنا چاہتی ہے ۔ وزیر داخلہ امت شاہ پہلے ہی 10 فیصد ووٹ بڑھانے کا دعویٰ کر چکے ہیں ۔ اگر بی جے پی 5 فیصد اپنا ووٹ شیئر بڑھانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کی سیٹوں کی تعداد 350 کے آس پاس پہنچ سکتی ہے ۔ 2019 کے لوک سبھا الیکشن میں اسے قریب 23 کروڑ ووٹ اور 303 سیٹیں ملی تھیں ۔ اس کو ملنے والے ووٹ 37.30 فیصد تھے ۔ وہیں کانگریس کو 52 سیٹیں اور 12 کروڑ ووٹ ملے تھے کانگریس کو ملنے والا ووٹ 19.46 فجیصد تھا ۔ 2014 میں بی جے پی کو 282 سیٹ اور 17.25 کروڑ ووٹ ملے تھے ۔ اس وقت بی جے پی کا ووٹ شیئر 31 فیصد تھا ۔ جبکہ کانگریس کو 44 سیٹیں اور 10.50 کروڑ ووٹ ملے تھے ۔ اسے ملنے والے ووٹ کا فیصد 19.3 تھا ۔ 2019 میں بی جے پی کے ووٹوں میں قریب 7 فیصد کا اضافہ ہوا تو اس کی سیٹیں 282 سے 303 ہو گئیں ۔ 2009 کے مقابلہ 2019 میں کانگریس 12 کروڑ ووٹ پر ہی اٹکی ہوئی ہے ۔ اس کے ووٹ میں 9 فیصد کی گراوٹ آئی ہے ۔ اس گراوٹ کو دور کرنے کے لئے کانگریس کو اپنی حکمت عملی وضع کرنی ہوگی ۔
کانگریس بی جے پی کی وکست بھارت یاترا کے مقابلہ راہل گاندھی کی سربراہی میں “نیائے یاترا” 14 جنوری سے شروع کرنے والی ہے جو 20 مارچ تک چلے گی ۔ اس درمیان الیکشن کی تاریخوں کا اعلان ہو جائے گا ۔ اسی کے پیش نظر کانگریس کا ایک دھڑا یاترا کے بغیر کانگریس کی تنظیم کو زمینی سطح پر مضبوط کرنے پر زور دے رہا ہے ۔ بی جے پی بوتھ سے آگے بڑھ کر “پنا پرمکھ” بنا کر ووٹروں کو بوتھ تک لانے کی حکمت عملی پر کام کر رہی ہے ۔ جبکہ کانگریس کی بوتھ کمیٹی تو دور کئی اضلاع میں ضلع اکائیاں تک نہیں بنی ہیں ۔ اس لحاظ سے کانگریس کے تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط بنانے پر زور دینے والوں کی بات درست ہے ۔ میرا خیال ہے کہ راہل گاندھی نیائے یاترا نکالیں لیکن کھرگے جی کو پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کے لئے اپنی ٹیم کے ساتھ کام کرنا چاہئے ۔ تاکہ لوک سبھا الیکشن سے پہلے بوتھ سطح کی کمیٹیاں بن جائیں ۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کانگریس کو 300 سیٹوں پر الیکشن لڑنا چاہئے باقی سیٹیں اپنی اتحادی پارٹیوں کے لئے چھوڑ دینی چاہیے ۔ ویسے اس کی امید کم ہے کہ کانگریس اپنے ہمدردوں کی بات پر توجہ دے ۔ یاد رکھنا چاہئے کہ بی جے پی کی کامیابی میں میڈیا اور سوشل میڈیا کا کردار اہم رہا ہے ۔ کانگریس اس وقت سب سے کمزور حالت میں ہے لیکن کانگریسی اپنے ہمدرد میڈیا کو بھی وقت دینے کو تیار نہیں ہیں ۔ انہیں اپنے تکبر اور گھمنڈ سے باہر آ کر دوست اور دشمن کو پہچاننا چاہئے ۔ لوک سبھا الیکشن میں وقت کم ہے مگر کانگریس کو کام زیادہ کرنا ہے ۔ اگر وہ سب کو ساتھ لے کر چلے تو وقت اور تیاری کی کمی کے باوجود بی جے پی سے مقابلہ کر سکتی ہے ۔ کیونکہ 2024 کا راستہ آسان نہیں ہے ۔