!دیکھنا ہے،ملک کی سیاست کا رنگ کیسا رہتاہے

تاثیر،۱۹ جنوری۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

بہار میں ایک بار پھر سیاسی ہلچل تیزگئی ہے۔اسی ہلچل کے درمیان راشٹریہ جنتا دل کے سربراہ لالو پرساد یادو اپنے بیٹے اور بہار ڈپٹی سی ایم تیجسوی یادو کے ساتھ کل بروز جمعہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار سے ملنے 1۔انے مارگ پہنچے۔ بہار میں تیزی سے بدلتے سیاسی حالات کے پیش نظر اس ملاقات کو بہت اہم مانا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے ان تینوں لیڈروں کی 15 جنوری کو سابق وزیر اعلیٰ بہار رابڑی دیوی کی رہائش گاہ پر ملاقات ہوئی تھی۔ اس دن لا لو پرساد اور نتیش کمار تقریباً 90 دنوں کے بعد ایک دوسرے کے آمنے سامنے آئے تھے۔ ان تینوں لیڈروں کے درمیان 30 منٹ سے زیادہ گفتگو ہوئی تھی۔قیاس کیا جا رہا ہے کہ اس ملاقات میں لالو پرساد اور نتیش کمار کے درمیان لوک سبھا انتخابات 2024 سے متعلق سیٹوں کی تقسیم کے سلسلے میں بات چیت ہوئی ۔سیاسی مبصرین کے مطابق سی ایم نتیش کمار چاہتے ہیں کہ سیٹ شیئرنگ کا مسئلہ جلد حل ہو جائے، جب کہ لالو پرساد یا دو کا کہنا ہے کہ اس معاملے میںفیصلہ سوچ سمجھ کر لیا جانا چاہئے۔
واضح ہو کہ لالو پرساد یادو اور تیجسوی یادو کی سی ایم نتیش کمار سے ہوئی اس ملاقات کے پہلے سے ہی بہار کی سیاست میں کچھ بڑی تبدیلی کی سر گوشیاں ہوا میں گشت کر رہی ہیں۔ اس دوران یہ بات بھی چرچا میں ہے کہ  آنے والے چند دنوں میں بہار میں بی جے پی اورجے ڈی یو کی پرانی دوستی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔اس طرح کی قیاس آرائیاں تبھی سے شروع ہو گئی ہیں، جب سے نتیش کمار نے اپوزیشن اتحاد’’انڈیا‘‘ کا کنوینر بننے سے انکارکر دیاہے۔اس کے بعد سے ہی سیاسی مبصرین یہ کہنے لگے ہیں کہ ’’سیاست میں نہ دوست مستقل ہوتے ہیں اور نہ دشمن‘‘۔ اس بیانیہ کو مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے حالیہ انٹر ویو نے مزید ہوا دے دی ہے۔چند دنوں قبل ایک انٹرویو کے دوران جب مرکزی وزیر امت شاہ سے یہ پوچھا گیا کہ ’’ نتیش کمار وغیرہ جیسے پرانے دوست جو چلے گئے ہیں، پھر سے آنا چاہتے ہیں تو کیا ان کے لیے دروازے کھلے ہیں؟‘‘ تو اس کے جواب میں امیت شاہ نے کہا ’’ اگر کسی کے پاس کوئی تجویز ہے تو اس پر غور کیا جائے گا۔‘‘  یہ جواب دینے والے وہی امِت شاہ ہیں، جو چند ماہ پہلے تک  کھلے عام نتیش کمار کے ساتھ اتحاد کے امکان کو مسترد کرتے رہے تھے۔ صرف امِت شاہ ہی نہیں بلکہ بہار سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کے سینئر لیڈر سوشیل کمار مودی ، گری راج سنگھ اور اشونی کمار چو بے وغیرہ تک نتیش کمار کو این ڈی اے میں شامل کرنے کے امکانات کو خارج کر تے رہے ہیں۔
  اِدھر نتیش کمار کی پارٹی جنتا دل یونائیٹڈ (جے ڈی یو) 22-24 کے دوران سماجوادی رہنما کرپوری ٹھاکرکے صد سالہ یوم پیدائش کے موقع پر تین روزہ تقریب کا اہتمام کرنے کی تیاری کو آخری شکل دینے میں جی جان سے جٹی ہوئی ہے۔ پارٹی نے اس کے لئے اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے۔کرپوری ٹھاکر کے صد سالہ یوم پیدائش کے موقع پرجے ڈی یو 24 تاریخ کو پٹنہ کے ویٹرنری کالج میدان میں ایک ریلی کا انعقاد کرنے جا رہی ہے۔ کرپوری ٹھاکر ایک سوشلسٹ رہنما تھے۔وہ جننائک کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ وہ دو بار بہار کے وزیر اعلیٰ رہے ہیں۔ انہیں ملک میںانتہائی پسماندہ اوردیگر پسماندہ طبقات کے حقوق کے تحفظات کا ایک بڑا علمبردار سمجھا جاتا ہے۔ 1978 میں وزیر اعلی کے طور پر، اس وقت کی جنتا پارٹی کی حکومت کے ایک اہم جزو، بھارتیہ جن سنگھ کی مخالفت کے باوجود  کرپوری ٹھاکر نے ریزرویشن سسٹم نافذ کیا۔ انہوں نے 26فیصد ریزرویشن ماڈل فراہم کیا۔ ان کے دور حکومت میںانتہائی پسماندہ کو 12 فیصد، دیگر پسماندہ طبقات کو 8 فیصد، خواتین کو 3 فیصد اور اقتصادی طور پر پسماندہ طبقات کو 3 فیصد ریزرویشن کی سہولت ملی۔
1988 میں اپنی موت کے بعد، جے پرکاش نارائن اور رام منوہر لوہیا کے بعد کرپوری ٹھاکر سب سے بڑے سوشلسٹ آئیکن بن گئے تھے۔ کرپوری ٹھاکر کی اہمیت تب اور بڑھ گئی جب اس وقت کی وی پی سنگھ حکومت نے 1990 میں منڈل کمیشن کی رپورٹ کو نافذ کرنے کا اعلان کیا۔ کرپوری ٹھاکر کے بعد نتیش کمار نے طویل عرصے سے خود کو ای بی سی ایشو کے سرکردہ چیمپئن کے طور پر قائم کیا ہے۔  یہی وہ اسٹیج ہے ، جہاں آکر ای بی سی آئیکن کرپوری ٹھاکر نتیش کے لیے زیادہ اہم ہو جاتے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ جے ڈی یو لیڈر کے سی تیاگی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے ’’ بی آر امبیڈکر کے بعد، کرپوری ٹھاکر بھارت میں سب سے زیادہ قابل احترام سیاسی آئیکن ہیں۔‘‘جے ڈی یو کی جانب سے نتیش کمار اور کر پوری ٹھاکر کی سیاست کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کے ساتھ یہ کہا جاتا رہا ہے کہ نتیش کمار نے پنچایت اور مقامی اداروں کی سطح پر خواتین کو 50 فیصد ریزرویشن دے کر، لڑکیوں کی اسکول فیس معاف کر کے، شراب پر پابندی لگا کر اور کرپوری ماڈل کو عوام اور غریبوں کے حق میں نافذ کرکے، پنچایتی راج نظام کو مضبوط بنا کرکرپوری ٹھاکر کے خوابوں کو کافی حد تک پورا کیا ہے۔24 جنوری کی ریلی کو جے ڈی یو کی جانب سےاپنے اسی موقف کی مضبوطی کے ساتھ عوام کے سامنے رکھنے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھا جا رہاہے۔جبکہ سیاست کے ماہرین یہ مان رہے ہیں کہ ملک اور ریاست بہارکے موجودہ سیاسی ماحول میں نتیش کمار اپنے لئے متبادل راستے کی تلاش میں ہیں۔ حالانکہ آر جے ڈی کے سربراہ لالو پرساد کئی بار کہہ چکے ہیں کہ’’ عظیم اتحاد‘‘ پوری طرح مضبوط ہے۔ تاہم ،آر جے ڈی سمیت’’ عظیم اتحاد ‘‘سے وابستہ تمام پارٹیاں 24 جنوری کو ہونے والی ریلی پر گہری نظر ر کھی ہوئی ہیں۔مانا جا رہا ہے کہ اس دن نتیش کمار اپنے خطاب میں اگرپی ایم مودی یا بی جے پی کے خلاف موقف اختیار کرتے ہیں تو اس سے یہ اشارہ ملے گا کہ وہ’’ عظیم اتحاد‘‘ اور اپوزیشن اتحاد’’ انڈیا‘‘ کے ساتھ ہی رہیں گے۔ بصورت دیگر دوسرے امکانات کو مسترد بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔سیاسی مبصرین کا بھی یہی ماننا ہے کہ مختلف قیاس آرائیوں کے درمیان کرپوری شتابدی ریلی میں ہی سب کچھ واضح ہو سکے گا۔ اب دیکھنا یہی ہے کہ 24 جنوری کے بعد ملک کی سیاست کا رنگ کیسا رہتا ہے  !
*****