تاثیر،۲۳ جنوری۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
پٹنہ23 جنوری : مشہور و معروف بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر منور رانا کے سانحہ ارتحا ل پر گورنمنٹ اردو لائبریری کے زیر اہتمام ارشد فیروز ، چیرمین کی صدارت میں ایک تعزیتی نشست منعقد ہوئی ۔ اس موقع پر منور رانا کے تئیں اپنی خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ارشد فیروز نے کہا کہ منور رانا مرحوم ایک مشہور شاعر تھے۔ انہوں نے اردو کے علاوہ ہندی اور اودھی زبانوں میں بھی لکھا۔ انہیں اردو ادب کے لیے 2014 کے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ منور رانا کے انتقال سے ادبی دنیا بالخصوص اردو ادبی دنیا کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ آج ہندوستان کی اردو، شاعری اور ثقافت کو بہت بڑا نقصان پہنچا ہے۔ یہ نسل رفتہ رفتہ معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ پہلے راحت صاحب اور اب منور۔ وہ ناقابل تلافی ہیں اور میری دعا ہے کہ اس کے اہل خانہ اور رشتہ داروں کو اس مشکل وقت میں ہمت ملے۔رانا نے اردو اور اودھی میں لکھا لیکن فارسی اور عربی اصطلاحات سے گریز کیا جو اردو کو ہندی سے ممتاز کرتی ہے۔ اس سے ان کی شاعری کو ہندوستانی سامعین تک رسائی حاصل ہوتی ہے اور غیر اردو خطوں میں منعقد ہونے والی شعری کانفرنسوں میں ان کی مقبولیت کی وضاحت ہوتی ہے۔اس موقع پر ارشد فیروز نے انکی مشہور نظم مہاجر نامہ کے چند معروف بند بھی سنائے اور ساتھ ہی ہندوستانی موسیقی کے نایاب ہیرا راشد خان کے موت پر اظہار افسوس کیا ۔
اس موقع پر معروف شاعر اثر فریدی نے منور رانا کے ساتھ گذرے ہوئے لمحات کا تفصیلی تذکرہ کیا اور ۱۹۸۰ ء سے منور رانا اور انکے درمیان کے تعلقات کے تلخ و شیریں باتوں سے روشناس کرایا ۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ منور رانا جیسا شاعر صدیوں میں پیدا ہوتاہے ۔ منظوم کلمات کیلئے تو وہ مشہور تھے ہی وہ نثری تخلیقات پر بھی عبور رکھتے تھے ۔ انکے افسانوں کا مجموعہ بھی پڑھنے کے لائق ہے ۔ ماں کے تعلق سے ان کے ذریعہ لکھے گئے کلام کابھی کوئی جواب نہیں ۔ اس موقع پر انہوں نے ایک قطعہ پیش کرکے بھی منور رانا کو اپنی خراج عقیدت پیش
کی شاعری میں تو بڑا ہے مقام رانا کا
کئی زبانوں میں تو آتا ہے نام رانا کا
شاعری ایسی کہ ہر اک کی زباں پر ٹھہرے
نثر میں بھی ہے برا احترام رانا کا
اس موقع پر گورنمنٹ اردو لائبریری کے ممبر ڈاکٹر انوارالہدیٰ نے منور رانا کے سانحہ ارتحال پر تعزیتی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ منور رانا جس احساسات و مشاہدات کا شاعر تھے وہ انکے کلام میں پایا جاتا ہے ۔ نہ صرف و اشعار کہتے بلکہ حکومت وقت کی آنکھوں میں انکھیں ڈال کر باتیں کرنا بھی جانتے تھے ۔اگست 2020 میں، منور رانا نے سابق چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی پر ایودھیا کا فیصلہ سنانے کے لیے “خود کو بیچنے” کا الزام لگایا تھا۔ انہوں نے مزید کہا تھاکہ یہ انصاف نہیں، حکم ہے۔ سپریم کورٹ کے ذریعہ آستھا کی بنیاد پر دئے فیصلہ کو انہوں فیصلہ ماننے سے انکار کردیا تھا ۔ وہ مرد قلندر تھے حق بات کہنے سے کبھی گریز نہیں کرتے ۔ بہار کی سرزمیں سے انکی گہری وابستگی رہی ۔
گورنمنٹ اردو لائبریری کے ممبر نسیم احمد نے بھی منظوم خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ
دل ، جگر ، کلیجہ شیر سا تھا
رانا کا سلیقہ اجمیر سا تھا
پاک دل ، شیریں زباں کے مالک تھے
اردو کے بازباں ، شاعری کے خالق تھے
معروف شاعر معین گریڈیہوی نے منظوم خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ
ترے جدو جہد کے وہ زمانے ہم نہیں بھولے
کہ اردو کے لئے گائے ترانے ہم نہیں بھولے
محبت اور شفقت کا تو ایسا ہی جو پیکر تھا
ہر اک روٹھوںکو سینے سے لگانے ہم نہیں بھولے
معروف شاعرہ شمع کوثر شمع نے بھی منظوم خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ
نہیں ہے تو تو بزم ہندوستاں کا اب یہ عالم ہے
ہر اک ڈوبا۔ ہوا ہے غم میں ہر سو آج ماتم ہے
کمی تیری کھلے گی یاد بھی آتا رہیگا تو
نہیں ہے تو تو اب سارا نظام بزم برہم۔ ہے
شمع کوثر شمع
شاعر حیدر امام حیدر نے بھی منظوم تعزیتی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ
شعر وادب کا ایک سوز چلا گیا
اردو زبان کا معتبر شاعر ہند کا
اس کے علاوہ معروف سہیل فاروقی ، نسیم اختر، ارادھنا پرساد نے بھی منظوم خراج عقیدت پیش کیا ۔ تعزیتی نشست کی نظامت محمد اظہر الحق نے کی ۔ جبکہ گورنمنٹ اردو لائبریری کے لائبریرین نے منور رانا کی شعری کائنات پر روشنی ڈالی ۔ اس موقع پر فرحت امتیاز نے بھی خراج عقیدت پیش کیا ۔ اس موقع پر ڈاکٹر آفتاب نبی، شاہد الحق،نشا کرن،مدھو کماری، مینا ناز ، ابھیشیک ، جمشید عالم ، محمد شہزاد، کامران احمد کے علاوہ درجنوں حضرات موجود تھے